پاکستان میں تعلیم کا چراغ جن ہاتھوں سے روشن ہوتا ہے، افسوس کہ وہی ہاتھ تاریکی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ پرائیویٹ اسکولوں اور کالجوں میں پڑھانے والے اساتذہ، جنہیں کبھی "معمارِ قوم" کہا جاتا تھا، آج اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ان کی زندگی ایک مسلسل جدوجہد کا نام ہے — کم تنخواہ، طویل اوقاتِ کار، عزت کی کمی، اور روز بروز بڑھتا ہوا ذہنی دباؤ۔ جو ہاتھ بچوں کے مستقبل کو سنوار رہے ہیں، انہی ہاتھوں کو اپنے بچوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کئی بار قرض مانگنا پڑتا ہے۔ ان کے چہروں پر مصنوعی مسکراہٹ ہوتی ہے، لیکن اندر ایک درد چھپا ہوتا ہے جو کسی کو دکھائی نہیں دیتا۔
اکثر اساتذہ صبح سات بجے اسکول پہنچتے ہیں، اور شام تک کام کرتے رہتے ہیں۔ ان کی ذمہ داریاں صرف پڑھانا نہیں، بلکہ اسکول کی تقریب کا انتظام، ایڈمن کام، بچوں کی غیر نصابی سرگرمیوں میں شمولیت، اور والدین کی شکایات سننا بھی ان کے ذمہ ہوتا ہے۔ اس سب کے بدلے میں انہیں ملتی ہے ایک معمولی سی تنخواہ، جو نہ ان کے ماہانہ اخراجات کے لیے کافی ہوتی ہے، نہ ان کی محنت کا صلہ۔ کئی خواتین اساتذہ اپنی عزت نفس مار کر، اپنے بچوں کو چھوڑ کر، صرف چند ہزار روپے کے لیے دن بھر خود کو جھونکتی ہیں۔ مرد اساتذہ دن میں اسکول پڑھاتے ہیں، شام کو ٹیوشن، اور رات کو فری لانسنگ یا پارٹ ٹائم جاب کرتے ہیں۔ یہ زندگی نہیں، بلکہ ایک اذیت ناک قید ہے، جس میں وقت کے ساتھ ساتھ خواب، امیدیں اور زندگی کی چمک مر جاتی ہے۔
یہ سب صرف معاشی استحصال نہیں، بلکہ ایک ذہنی، جذباتی اور انسانی استحصال بھی ہے۔ آج کا استاد ہر لمحہ ایک بے یقینی کا شکار ہے۔ نوکری کا کوئی تحفظ نہیں، کل اگر اس نے کسی انتظامی ناانصافی پر آواز بلند کی، تو آسانی سے نکالا جا سکتا ہے۔ اور نکالنے والے کو کوئی جوابدہی نہیں۔ ان کے پاس کوئی یونین نہیں، کوئی عدالت نہیں، کوئی سہارا نہیں۔ بعض اساتذہ ذہنی دباؤ کا شکار ہو کر ڈپریشن میں چلے جاتے ہیں، کچھ کا بلڈ پریشر اور شوگر بڑھ جاتی ہے، اور کچھ ایسے بھی ہیں جو خاموشی سے زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں — ہارٹ اٹیک، دماغی سکتہ، یا خودکشی کی صورت میں۔ مگر ان کی موت کسی نیوز چینل کی بریکنگ نیوز نہیں بنتی۔ معاشرہ بس اگلے دن ایک نیا استاد بھرتی کر لیتا ہے، جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔
افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ معاشرے نے استاد کو صرف "کام کرنے والا فرد" بنا دیا ہے، ایک ایسا شخص جو بس "پرفارم" کرے، جذبات نہ دکھائے، سوال نہ کرے، حق نہ مانگے۔ یہ وہی استاد ہے جس نے ہمیں الف سے انسانیت، ب سے بیداری اور ت سے تربیت سکھائی تھی۔ آج وہی استاد اپنی عزت، اپنی پہچان، اور اپنی زندگی کے معنی کھو چکا ہے۔ اب وہ صرف ایک مشین ہے، جو روز صبح آن ہو کر رات کو بند ہو جاتی ہے۔ لیکن مشینوں کے اندر دل نہیں ہوتے، اور استاد کے دل میں بہت کچھ ہوتا ہے — درد، جذبہ، اخلاص، لیکن ہم نے اس دل کو نظر انداز کر دیا۔
وقت آ چکا ہے کہ ہم صرف تعلیم کے ادارے نہ بنائیں، بلکہ اساتذہ کے لیے عزت اور تحفظ کے قلعے کھڑے کریں۔ پرائیویٹ اسکول مالکان کو قانون کے دائرے میں لا کر ان سے اساتذہ کے بنیادی حقوق کی ضمانت لینا ہوگی۔ اساتذہ کے لیے تنخواہوں کا ایک باقاعدہ نظام، صحت کی سہولتیں، ذہنی صحت کی کیئر، اور ملازمت کا تحفظ ضروری ہے۔ اگر ہم نے اپنے معماروں کو سہارا نہ دیا تو یہ قوم صرف عمارتیں بنائے گی، کردار نہیں۔ استاد اگر اندر سے ٹوٹ جائے تو وہ نسلیں کیسے سنوارے گا؟
ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ایک استاد صرف علم دینے والا نہیں، وہ مستقبل تراشنے والا ہے۔ اور اگر مستقبل کو تراشنے والا خود زخموں سے چُور ہو، تو ہم کس قسم کے کل کی توقع کر سکتے ہیں؟ یہ مضمون ایک پکار ہے — ہر استاد کی خاموش چیخ، جو کانوں میں نہیں، دلوں میں سنائی دیتی ہے۔ اب اگر ہم نے نہ سنا، تو کل ہماری نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔
0 Comments