Ticker

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

1980 کی شادی کا احوال


سال 1980 کی شادی: جب شادی صرف تقریب نہیں گاؤں کا تہوار ہوتی تھی.بس جناب، بات ہے 1980 کی۔ وہ دور جب شادی صرف دو دلوں کا نہیں، پورے محلے، چچا، پھوپھی، تایا، ہمسایہ، اور "چوٹی کی طرف کے" رشتہ داروں کا میلہ ہوا کرتی تھی۔ دلہا صاحب کو اکثر آخری لمحے تک یہ نہیں پتا ہوتا تھا کہ وہ دلہا ہیں یا کوئی اتفاقاً سوٹ پہن کر ادھر آ گیا ہے۔

یہ کہانی ہے ان دنوں کی، جب شادی فائیو اسٹار ہوٹل میں نہیں بلکہ گھر کے صحن، گلی، اور کبھی کبھار گاؤں کے واحد پرائمری اسکول کے میدان میں ہوتی تھی۔ اور شادی کی تیاریاں دلہن سے زیادہ روٹھے رشتے منانے میں لگتی تھیں۔اور بہت سے جھگڑے کسی شادی کے انتظار میں سالوں سے بیٹھے ہوتے تھے کہ کب شادی ہو اور کب صلاح ہو۔

ناراض رشتے داروں کو منانا – شادی ہے یا امن مشن؟ 

شادی کا پیغام پہنچتے ہی سب سے پہلا کام ہوتا تھا ناراض رشتے داروں کو منانا۔ 

پہلا ہفتہ تو "ریکنسیلیئیشن کمیٹی" کا ہوتا تھا۔ دادا جی بولے
چاچا رشید کو منا لیا، کیونکہ پچھلی شادی پہ اسے بوتل نہیں ملی تھی۔ چاچا رشید بھی تب سے ضد لگا کر شادی کا انتظار کر رہا تھا کہ ویاں تے ویکھ لا ں گاں۔
خالہ رضیہ  روٹھی ہوئی تھیں کیونکہ پچھلی بار انہیں کرسی نہیں ملی تھی، دری پر بٹھایا گیا تھا۔ 

ماما شفیع بھی ناراض تھا کہ پچھلی بار اسے دیگ پر نہیں بٹھایا گیا تھا۔ اس نے آرام سے نہیں ماننا۔ پگ ہی رکھنی پڑنی اسکے پاوں میں۔

پر ایک بات ہے اس جھگڑے اور ناراضگی میں ایک محبت،اور مان ہوتا تھا۔

 تاریخ رکھنا – جو سب کو راس آئے

اس زمانے میں شادی کے دن رکھنا بھی پوراڈرامہ ہوتا تھا۔ پورے خاندان میں پوچھا جاتا تھا کہ ان دنوں کسی کے امتحان تو نہیں ہونے والے یا کسی کے بچہ تو نہیں ہونے والا۔ کیونکہ پچھلی دفعہ خالہ ثریا نے آنے سے انکار کر دیا تھا کہ اسکی بہو کا چھلا پڑنے والا یے۔
 پیر کو مولوی صاحب کے بھانجے کی ولیمہ
  منگل کو چچا کریم دین کے پوتے کے ختنے
 بدھ کو رمضان نائی پہلے ہی بک ہے۔
جمعرات بچ گئی۔۔اور سب راضی، سوائے چاچی سکینہ کے، کیونکہ ان کا "ستارہ" جمعرات کو ٹھیک نہیں تھا۔

خیر سے جمعہ طے پا گیا۔

  پکوانوں کی تیاری
 شادی پر کیا پکے گا کیوں پکے گا اسکے لئے کابینہ کی سپیشل میٹنگ ضروری ہوتی تھی۔ جس میں چاچے مامے شرکت کرتے تھے اور پورا دن کی بحث کے بعد بات آلو گوشت ، نان اور زردے پر ختم ہوتی تھی۔ یار پانی گھٹ پوائیں پچھلی واری شورا زیادہ سی۔ تائے جیدے نے حکم جھاڑا۔
شادی اور نائی
گاوں میں کسی کے ختنے ہونے ہوں یا شادی کا پیغام دینا ہو یا دیگیں پکانی ہوں رمضان نائی کے بغیر یہ نا ممکن تھا۔   
ان دنوں شادیوں پر مٹھائی کے لئے باقاعدہ حلوائی گھر پر ہی بھٹی لگا کر تازہ مٹھائی تیار کرتا تھا۔حلوائی آیا، بھٹی لایا، ساتھ وہ دیگچی جس میں پورا بچہ سما جائے۔
سوجی کی رس ملائی، گلاب جامن، اور وہ خاص مٹھائی جس کا نام کسی کو نہیں پتا، مگر سب کھاتے ضرور ہیں۔
شادی سے دو دن پہلے ہی گاؤں میں خوشبو پھیل گئی۔
دیگیں آ گئیں، باورچی بھی – جن کے ساتھ ہمیشہ ایک چھوٹا سا لڑکا ہوتا تھا جو دیگ میں جھانک کر چمچہ چلاتا تھا اور ہر کسی سے کہتا۔ہر خاندان میں ایک ایسا بابا ضرور ہوتا تھا جو ہر پانچ منٹ کے بعد نمک چیک کرنے آتا تھا۔

دیگ میں بکرے کا قورمہ، جسے پکاتے پکاتے رمضان نائی خود بھی قورمہ جیسے رنگ کے ہو گئے۔ زردہ – جس میں اتنی رنگت تھی کہ ہاتھ لگانے سے لگتا "مہندی لگا لی"۔

خاندان کا ایک بندہ دیگوں پر بیٹھنے کے لئے مخصوص ہوتا تھا اور اسکی وکھری ہی ٹور ہوتی تھی۔ کاندھے پر رومال ، سر پر صافہ اور چہرے پر مدبرانہ سی مسکراہٹ

منجی بسترے

خاندان کے ویلے نوجوان پورے گاوں سے منجی بسترے اکھٹے کرکے لاتے تھے تاکہ مہمانوں کو سلانے میں آسانی ہو۔ چادر، تکیے اور گدے کی نکڑ پو اس گھر کا نام لکھا جاتاتھا تاکہ بستر مکس نہ ہو جائیں۔ 

شادی سے دو ہفتے پہلے ہی رشتے دار آن دھمکتے

ماموں، پھپھیاں، خالائیں، بچے، اور وہ رشتے دار جنہیں صرف شادیوں پر دیکھا جاتا تھا — سب آ جاتے۔

کزنز گھر کے صحن میں کرکٹ کھیلتے، نانا جی ہر ایک کو مشورہ دیتے، اور دادی اماں روز ناپ تول کرتیں کہ آج کتنی روٹیاں بنانی اور کتنی دال پکانی۔

مرچوں والی لائٹس – شادی نہیں، دیوالی لگتی تھی

دو ہفتے پہلے ہی مرچوں والی لائٹس لگا دی گئیں، جو ہر رات ٹِک ٹِک ٹِک... فِس کرتی تھیں۔

پورے گاؤں کو لگتا تھا

"او جی! کسی نے بجلی کی شادی کر دی اے!"

اور جب رات کو بتی جاتی، سب بچے چلاتے:

"اوہ ہو! ویاہ والی لائٹاں مر گئیاں!"

  ٹینٹ، کرسیاں، اور دیسی انداز

ٹینٹ لگے، وہ بھی رنگ برنگے – نیلا، گلابی، سبز، اور کچھ ایسے رنگ جو صرف 80 کی دہائی میں مقبول تھے۔
کرسیاں کم تھیں، اس لیے آگے "وڈے لوگ" بیٹھے، اور باقی سب دری پر۔ دری بھی وہی، جو ہر شادی میں آتی، اور ہر بار نئی دھلائی سے کم از کم تین رنگ ہلکے پڑ جاتے۔
  دری پر ناچ، اور شادی کا شو
مہندی کی رات، جب ڈھولکی بجی، تو پہلا ڈانس ہمیشہ وہی خالہ کرتی تھی جو کہتی تھیں:

"میں ناچتی نہیں، بس بچوں کا دل رکھنے کو..."

باقی عورتیں تالیاں بجاتیں، بچے پیچھے ڈھول بجاتے، اور لڑکیاں "چٹیاں کلائیاں" گانے پر ناچتیں۔ پھر وہ لمحہ بھی آیا جب چاچا رفیق خود سے بے خبر ہو کر لٹھا کا کرتا اُٹھا کر ناچنے لگے، اور کسی نے پیچھے سے آکر کہا:  چاچا،دھوتی نا ڈگ پئےْ

مامے کا کھارے سے اتارنا – اور ماموں خود گُھٹنے پکڑ کر بیٹھے

ماما صدیق سگریٹ پی کو سو رہا تھا کہ کسی نے اسے جگایا کہ منڈے نو کھارے تو لا دے۔

پھر مامے نے شان سے دو روپے دلہے کے ہاتھ میں رکھے اور اسے گود میں اٹھا کر نیچے کھڑا کر دیا۔جسے کھارے سے اتارنا بولتے تھے، اکثر اس رسم کے دوران مامے کو چک پڑ جاتی تھی۔ کسی نےآواز:او جی مامے صدیق دا جوڑ نکل گیا اے، پر رسم پوری ہو گئی

دلہا بیچارہ

 دولہا ان دنوں پورا ایک نمونہ لگتا تھا۔ جناح کیپ اور بڑا سا سہرہ اور ایک دو روپے کے نوٹوں ولے ڈھیروں ہار۔ دولہا اسی فکر میں گھائل ہوتا تھا کہ کوئی بچہ نوٹ نہ اتار لے۔

دلہا صاحب جب سفید گھوڑے پر سوار ہو کر آیا، تو باجے والے نے گانا بجایا ویر میرا گھوڑی چڑیا

پورے پنڈ کی کڑیاں اپنے چھت کی منڈیر پر کھڑی دوپٹے سے منہ چھپائے دلہا میں کیڑے نکالنے میں مصروف ہوتی تھیں۔

شبیر دبئی والا اپنے اگفا کلر کیمرا گلے میں لٹکائے الگ ہی ٹور بنائے کھڑا ہوتا تھا۔ اسے یہ فکر ہوتی تھی کہ 36 والی ریل نہ مک جائے۔

بزرگوں کی "ملنی" – جیسے تھپڑ نہیں، گلے ملنے کی مقابلہ بازی ہو

ایک طرف دلہے کے مامے، دوسری طرف دلہن کے تایا۔
گلے ملتے، دائیں، بائیں، پھر دوبارہ – اور اتنا زور سے کہ
  لگتا تھا کہ ایک دوسرے کی ہڈیاں نا توڑ دے

نکاح پر حق مہر کا جھگڑا – مولوی بھی پریشان

مولوی صاحب:
"حق مہر کتنا رکھنا ہے؟"

دلھن کے ابا:
"دو ہزار"
دولہے کے چاچا:
"دو ہزار؟ کی لندن لے کے جا رہے ہو؟"

پھر مولوی صاحب بولے:
"چلو جی، بیچ کا نکال لو، ا ہزار کر لو، اللہ برکت دے گا

 رخصتی کا لمحہ

دلھن کے ابا آنکھیں پونچھتے ہوئے فرماتے:
"بیٹی، جہیز تھوڑا ہے، پر دعاواں بہت نیں

اور ماں کا بس نہیں چلتا تھا کہ دلہن کو دوبارہ پیچھے کھینچ لے۔ رخصتی کے وقت سب روتے تھے۔ ایک بات تھی جتنی بھی رنجش ہوتی تھی پر اس وقت نکلنے والے آنسو خالص ہوتے تھے۔ اور دلہن کا بھائی، جو پورے وقت "اکڑ کر" کھڑا تھا، چپکے سے رومال سےآنکھیں صاف کررہا ہوتا تھا۔ اور دلہا بیچارہ اس سارے وقت میں یہی سوچ رہا ہوتا

"اماں کہہ رہی تھی جوتا چھپا لیں گے، سو دو سو لگیں گے، میں نے تو پیسے پرس میں بھی نہیں رکھے۔!"


 اور یوں ختم ہوئی وہ شادی – جس میں دیگیں زیادہ، نیند کم، قہقہے خالص، اور یادیں زندگی بھر کی تھیں۔
یہ وہ وقت تھا جب شادیاں دل سے ہوتی تھیں، موبائل سے نہیں۔
محبت دیگ سے نکلتی تھی، نہ کہ انسٹاگرام اسٹوری سے۔
اور خوشی ہر روٹھے رشتے دار کو منا کر ملتی تھی، نہ کہ "انفالو" کر کے۔


You May Read This Also

Post a Comment

0 Comments