"خدمت کا فقیر – عبدالستار ایدھی کی کہانی
دنیا میں کچھ لوگ صرف تاریخ کا حصہ نہیں بنتے، وہ خود تاریخ رقم کرتے ہیں۔ ان کے ہاتھ میں قلم نہیں ہوتا، مگر ان کی زندگی کا ہر لمحہ انسانیت کی ایک زندہ کتاب بن جاتی ہے۔ عبدالستار ایدھی بھی ایسی ہی ایک ہستی تھے – سادہ، گمنام، لیکن روح کی گہرائیوں تک عظیم۔
ابتداء – خاک نشین کا جنم
۔ 28 فروری 1928 کو بھارتی گجرات کے ایک چھوٹے سے قصبے "بنتوا" میں پیدا ہونے والا یہ بچہ، عبدالستار، کسی بادشاہی خواب کے ساتھ نہیں آیا تھا۔ اس کی آنکھوں میں دولت کی چمک نہیں، دکھوں کی نمی تھی۔ انکی والدہ، ایک دیندار، نرم مزاج خاتون تھی۔ وہ اکثر کہا کرتی:
"بیٹا! اگر کسی کو درد
میں دیکھو، تو اس کا ہاتھ پکڑو۔ کسی کا جنازہ اٹھتا دیکھو، تو دعا دینا۔
اور اگر کوئی لاوارث ملے، تو اسے گلے لگا لینچھوٹی عمر میں ہی ماں کے ہاتھوں سیکھا کہ کسی گلی میں پڑا لاوارث بچہ بھی اپنا ہو سکتا ہے، اور کسی اجنبی کو دوا دے کر اس کی تکلیف بانٹنا ہی اصل عبادت ہے
یہی وہ سبق تھا جو عبدالستار کے اندر ایسا جذبہ بن کر اترا کہ زندگی بھر کا راستہ طے کر گیا۔
۔ 1947 کا سال تھا۔ خون کی ہولی کھیلی جا رہی تھی۔ سرحد کے آر پار لاشیں گر رہی تھیں، اور انسانیت کراہ رہی تھی۔ عبد الستار اپنی فیملی کے ساتھ مہاجرین کے قافلے میں کراچی آیا۔ اس کے ہاتھ میں کچھ نہ تھا، لیکن آنکھوں میں ماں کی باتیں اور دل میں انسانیت کا درد لے کر آیا تھا۔
کراچی اس وقت زخموں کا شہر بن چکا تھا – گلیوں میں بھوکے بچے، سڑکوں پر زخمی بزرگ، اسپتالوں میں بےیار مددگار مریض۔ ایدھی نوجوان تھا، لیکن وہ خاموش تماشائی نہیں بن سکا۔ وہ سوچنے لگا:
"کیا کوئی ہے جو ان کا بنے؟ اگر کوئی نہیں ہے، تو کیا میں خود نہیں بن سکتا؟"
عبدالستار نے ان زخموں میں مرہم ڈھونڈنا شروع کیا۔ تعلیم مکمل نہ ہو سکی، مگر جو سبق ماں نے سکھایا تھا، وہی زندگی کا نصاب بن گیا۔
ایک خواب، ایک ایمبولینس
۔ 1951 میں، جیب میں چند سکے اور دل میں سمندر جیسا جذبہ لے کر عبدالستار نے ایک پرانی وین خریدی – یہی وین پاکستان کی پہلی "ایدھی ایمبولینس" بنی۔ وہ خود اس کا ڈرائیور تھا، خود نرس، اور خود تیمار دار۔ نہ کوئی تنخواہ، نہ کوئی مراعات۔ صرف ایک مقصد: خدمت خلق۔ عبدالستار ایدھی خود ڈرائیور تھے، خود ڈاکٹر، خود تیمار دار، اور خود جنازہ اٹھانے والے بھی۔
وہ اکثر کہا کرتے:
یہ میری عبادت ہے، کسی سڑک پر گرے زخمی کو اٹھانامجھے پسند ہے۔
لوگ ہنستے، اسے پاگل کہتے، مگر ایدھی نے اپنے قدم روکے نہیں۔ وہ جانتا تھا کہ جس راہ پر وہ ہے، وہ کانٹوں سے بھری ہے، مگر اس راہ کا اختتام جنت ہے۔
آہستہ آہستہ، لوگوں کا اعتماد بڑھا۔ کوئی بھوکا آتا تو روٹی ملتی، زخمی آتا تو پٹی کی جاتی، لاش آتی تو کفن دیا جاتا۔ ایدھی نے کسی سے نہیں پوچھا کہ وہ کون ہے، کس مذہب سے ہے، کس مسلک سے ہے۔ اس کے نزدیک ہر انسان ایک جیسا تھا – ایک جیسی عزت کا حق دار۔
ایدھی فاؤنڈیشن – انسانیت کا سب سے بڑا قافلہ
عبدالستار ایدھی نے "ایدھی فاؤنڈیشن" کی بنیاد رکھی، جو وقت کے ساتھ ساتھ پاکستان ہی نہیں، دنیا کی سب سے بڑی فلاحی تنظیموں میں شمار ہونے لگی۔ 1800 ایمبولینسیں، درجنوں شیلٹر ہومز، یتیم خانے، لاوارث بچوں کے لیے جھولے، بوڑھوں کے لیے پناہ گاہیں – یہ سب ان کے نیک خواب کی تعبیر تھے۔
انھوں نے کبھی حکومت سے مدد نہیں لی، کبھی فنڈ ریزنگ کمپینز نہیں کیں۔ وہ خود سڑک پر کھڑے ہو کر چندہ مانگتے، اور ہر پیسہ براہ راست مستحق کے کام آتا۔ ان کے نزدیک شفافیت ہی اصل صداقت تھی۔
جھولا، لاوارث بچے اور ماں کا سایہ
کراچی کے اسپتالوں، فٹ پاتھوں اور گلیوں میں ایدھی نے وہ منظر دیکھے جن پر انسانیت شرمندہ ہوتی ہے۔ نومولود بچوں کو کچرے میں پھینک دیا جاتا، مائیں غربت سے مجبور ہو کر اپنی اولاد کو چھوڑ جاتیں۔
تب ایدھی نے اپنے فاؤنڈیشن کے باہر لکڑی کا ایک جھولا رکھا، جس پر ایک سادہ سا بورڈ لگا:
"اپنا بچہ قتل نہ کریں، اسے ہمارے جھولے میں ڈال دیں۔"
یہ جھولا کسی بھی قوم کا سب سے خاموش، مگر سب سے بلند چیخنے والا آئینہ بن گیا۔ سینکڑوں بچے اس جھولے سے نکل کر زندگی کی طرف بڑھے، اور انھیں ایدھی "اپنے بچے" کہا کرتے۔
اور ایک رپورٹ کے مطابق ہزاروں بچوں کی ولدیت میں عبدالستار ایدھی کا نام لکھا ہے۔
سادگی، انکساری اور عظمت
ایدھی صاحب کا لباس ہمیشہ سادہ، بات چیت مختصر، اور نظریہ واضح ہوتا۔ انھوں نے زندگی بھر نہ کوئی عہدہ چاہا، نہ شہرت کی تمنا کی۔ ان کے نزدیک سب سے بڑی پہچان "خدمت گزار" ہونا تھا۔
ایدھی فاؤنڈیشن وقت کے ساتھ بڑھتی گئی – مگر اس کے بانی کی زندگی ویسی ہی رہی۔
نہ نیا لباس، نہ ایئر کنڈیشنڈ دفتر، نہ کوئی عہدہ۔
وہ ایک کچے دفتر میں فرش پر بیٹھے نظر آتے، پنکھا ہاتھ سے جھلتے، اور ایمبولینس کا ہینڈل خود تھامے۔
لوگ ان سے پوچھتے:
"آپ نے زندگی سے کیا پایا؟"
وہ مسکرا کر کہتے:
"ایک دعاؤں بھرا دل، جس کی قیمت دنیا میں کوئی نہیں چکا سکتا۔"
انھیں دنیا بھر میں اعزازات ملے – نشانِ امتیاز، امن کے نوبل انعام کے لیے نامزدگی، لیکن ان کے لیے سب سے بڑا انعام وہ آنکھیں تھیں جو دعاؤں سے بھیگ جاتیں، وہ ہاتھ جو دعا کے لیے اٹھتے، وہ بچے جو ایدھی کے گود میں پناہ پاتے۔
ایدھی صاحب اور خاندان سے محبت
۔ 1965 میں ایدھی کی زندگی میں بلقیس بیگم آئیں –بلقیس بیگم پیشہ کی مناسبت سے نرس تھیں، مگر ایدھی کی طرح درد کی آواز پہچانتی تھیں۔ ان دونوں نے مل کر بچوں کے لیے یتیم خانے، عورتوں کے لیے پناہ گاہیں اور مریضوں کے لیے مفت دواخانے قائم کیے۔ یہ ایک ایسی شادی تھی جس میں سادگی تھی، مگر اس کی بنیاد انسانیت پر رکھی گئی تھی۔ انکے چار بچے ہیں جن میں دو بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں جو کم عمری میں ہی عوامی خدمات میں مصروف رہے ہیں۔ اپنی وفات تک ایدھی صاحب نے ایک سادہ زندگی گذاری۔
سچائی کی قیمت
ایدھی کو کئی بار دھمکیاں دی گئیں، یہاں تک کہ اغوا کرنے کی کوششیں ہوئیں۔
ایدھی صاحب کو حکومتی عہدوں کی بھی آفر ہوئی جو انہوں نے قبول نہیں کی۔
ایک بار کسی نے سوال کیا:
"آپ اتنا کیوں کرتے ہیں، یہ سب کچھ حکومت پر چھوڑ دیں؟"
ایدھی کا جواب تاریخ بن گیا:
"جب حکومت سو رہی ہو، تو ایک دیوانے کو جاگنا پڑتا ہے!"
مگر خدمت کا سفر جاری ہے
۔ ✅میرے اعضاء عطیہ کر دیے جائیں۔
۔ ✅کفن سادہ ہو، جنازہ بغیر کسی پروٹوکول کے۔
۔ ✅میری قبر پر سنگِ مرمر نہ لگایا جائے۔
انھیں سرکاری اعزاز کے دفن کیا گیا اور انکی میت کو پاکستان کے پرچم میں لپیٹا گیا، مگر جو سب سے عظیم خراج تھا، وہ لاکھوں یتیم بچوں کی آنکھوں کے آنسو تھے، جو اسے "بابا" کہتے تھے۔
جولائی 2016 کو عبدالستار ایدھی کا جسدِ خاکی زمین میں اتار دیا گیا، مگر ان کی روح، ان کی سوچ اور ان کا مشن آج بھی زندہ ہے۔ ان کا خواب، ان کی بنیاد، ان کا قافلہ آج بھی ہزاروں رضاکاروں کے دلوں میں دھڑک رہا ہے۔
ایدھی صاحب نے ہمیں سکھایا کہ ہمسایہ اگر بھوکا ہو تو عبادت مکمل نہیں ہوتی، کہ لاوارث لاش کو دفنانا فرض ہے، اور یہ کہ دین، نسل، فرقہ، زبان سب ثانوی باتیں ہیں – اصل انسانیت ہے۔
قوم کا مسیحا، انسانیت کا سفیر
عبدالستار ایدھی کوئی دیومالائی کردار نہیں تھے، وہ ہمارے درمیان کا ایک عام انسان تھے جس نے غیرمعمولی کام کیے۔ آج جب ہم ان کی کہانی پڑھتے ہیں، تو دل کہتا ہے:
"کاش ہم بھی کسی کی زندگی میں ایدھی بن جائیں!"
0 Comments