عنوان: سرورِ ساز و آواز – استاد سلامت علی خان
کہا جاتا ہے کہ قدرت بعض انسانوں کو ایسی خاص صلاحیتوں سے نوازتی ہے جو زمانے کو بدل کر رکھ دیتی ہیں۔ آواز کی دنیا میں اگر کسی ایک شخصیت نے برصغیر کے دلوں کو چھو لیا، تو وہ تھے استاد سلامت علی خان صاحب۔ ان کی زندگی ایک گہری، خوبصورت دُھن کی مانند تھی، جو ہر سُر میں محبت، عقیدت، اور فن کی انتہا لیے ہوئے تھی۔
ابتداء: ایک خوش نوا صبح کا آغاز
استاد سلامت علی خان 1925 میں شرافت علی خان کے گھر پنجاب (غالباً شمولپور، سیالکوٹ) میں پیدا ہوئے۔ موسیقی ان کے خون میں رچی بسی تھی۔ ان کے والد اور خاندان کئی نسلوں سے کلاسیکی موسیقی سے جُڑے ہوئے تھے۔ انہوں نے اپنے بڑے بھائی استاد نزاکت علی خان کے ساتھ بچپن ہی سے شام چوراسی گھرانے کی روایات میں تربیت لینا شروع کی۔
یہ گھرانہ صوفی روایت، روحانی سروں، اور پیچیدہ راگوں کی ماں سمجھا جاتا تھا۔ بچپن سے ہی سلامت علی کی آواز میں ایسی گہرائی اور روانی تھی کہ بزرگ حیران رہ جاتے۔ ان کے والد نے انھیں نہ صرف راگوں کی تعلیم دی بلکہ روحانیت اور فن کی توقیر کا سبق بھی سکھایا۔
عروج کی طرف سفر
استاد سلامت علی خان اور ان کے بھائی استاد نزاکت علی خان نے بطور جوڑی (duo) گائیکی کا آغاز کیا۔ ان کی جوڑی نے 1940 اور 1950 کی دہائی میں ہند و پاک کے کلاسیکی موسیقی کے افق پر تہلکہ مچا دیا۔ ان کا انداز نرالا، پیچیدہ راگوں کو آسان کر کے سننے والوں کے دل میں اُتار دینا، اور سروں کی ایسی بُنت کہ سننے والا بےخود ہو جائے۔
ان کی جُگلبندی میں ہم آہنگی، محبت، اور عقیدت کی جھلک ہوتی تھی۔ استاد سلامت علی خان کی آواز میں ایک قدرتی شوخی، برجستگی اور گیرائی تھی جو راگ درباری سے لے کر مالکوٗنس تک ہر راگ میں سنائی دیتی۔
ان کے فن کو آل انڈیا ریڈیو، پاکستان ریڈیو، اور بعد ازاں پاکستان ٹیلیویژن نے بھرپور انداز میں پیش کیا۔ اُن کی گائیکی صرف محافلِ موسیقی تک محدود نہ رہی بلکہ روحانی محفلوں، صوفی درباروں اور عالمی سطح کے اسٹیج تک پہنچی۔
تنہا راہی کا سفر
1984 میں، استاد نزاکت علی خان کے انتقال کے بعد، استاد سلامت علی خان نے تنہا گانا شروع کیا۔ یہ ان کے لیے مشکل وقت تھا، لیکن انہوں نے اپنے فن کو قائم رکھا۔ ان کی سولو گائیکی نے بھی اسی طرح دلوں کو چھوا۔ ان کی آواز میں ایک نئے رنگ کی جھلک آئی، جیسے تنہائی نے گہرائی کو اور پختہ کر دیا ہو۔
انہوں نے اپنے بیٹوں، خاص طور پر راحت علی خان اور شفقت سلامت علی خان کو بھی اس فن میں تربیت دی، اور یوں شام چوراسی گھرانے کی روشنی ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل ہوئی۔
اعزازات اور عالمی شناخت
استاد سلامت علی خان کو نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں سراہا گیا۔ حکومتِ پاکستان نے انہیں تمغۂ حسنِ کارکردگی اور ستارۂ امتیاز جیسے اعلیٰ اعزازات سے نوازا۔ وہ ان چند فنکاروں میں سے تھے جنہیں بھارت میں بھی عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا رہا۔
وہ نہ صرف ایک عظیم گائک تھے، بلکہ ایک درویش مزاج انسان بھی۔ ان کا لباس، طرزِ گفتگو، اور شاگردوں سے برتاؤ میں سادگی، شفقت، اور وقار ہوتا۔
اختتام: ایک راگ جو کبھی ختم نہ ہوا
21 جولائی 2001 کو استاد سلامت علی خان یہ فانی دنیا چھوڑ گئے، مگر ان کی آواز آج بھی زندہ ہے۔ وہ آج بھی ریڈیو، یوٹیوب، کلاسیکل میوزک کانسرٹس اور شاگردوں کی آوازوں میں زندہ ہیں۔ ان کا ہر الاپ، ہر تان، ایک دعائیہ کیفیت رکھتا ہے۔
خلاصہ: ایک فنکار، ایک روایت، ایک روح
استاد سلامت علی خان کی زندگی صرف سروں کی داستان نہیں، بلکہ ایک روحانی سفر ہے۔ وہ ایک فنکار تھے جو نہ صرف راگ گاتے تھے بلکہ سننے والوں کے دلوں میں سُر بسا دیتے تھے۔ ان کی زندگی اس بات کی گواہی ہے کہ سچے فنکار مر کر بھی نہیں مرتے۔ ان کا فن، ان کا انداز، ان کی خوشبو ہمیشہ قائم رہتی ہے۔
۔
0 Comments