پاکستانی ہاکی کے بے تاج بادشاہ: سہیل عباس کا ایک مکمل تجزیہ
پاکستانی ہاکی کی تاریخ میں کئی ایسے نام ہیں جنہوں نے ملک کا نام روشن کیا، مگر ان میں سے ایک نام ایسا ہے جو ہاکی شائقین کے ذہنوں میں ہمیشہ نقش رہے گا - سہیل عباس۔ "ڈریگ فلک کے بادشاہ" کے نام سے مشہور سہیل عباس نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں ہاکی کے میدان میں ایک عظیم لیجنڈ کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ یہ بلاگ پوسٹ ان کی ابتدائی زندگی، شاندار کیریئر، خاندانی پس منظر، اور ان کے قائم کردہ بے مثال ریکارڈز کا ایک مکمل احاطہ کرتی ہے۔
ابتدائی زندگی اور خاندانی پس منظر:
سہیل عباس 9 جون 1977 کو کراچی کے ہولی فیملی ہسپتال، سولجر بازار میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے کراچی کے حبیب پبلک اسکول سے تعلیم حاصل کی، جو کئی دیگر ہاکی ستاروں کا بھی مادر علمی رہا ہے۔ حقیقت میں، یہ بجا طور پر کہا جاتا ہے کہ اس اسکول میں ہاکی ایک مضمون کے طور پر پڑھائی جاتی ہے۔ سہیل عباس کا تعلق ایک کھیلوں سے وابستہ خاندان سے ہے۔ ان کے والد، سید افتخار حسین، ایک سابق فرسٹ کلاس کرکٹر تھے، جنہوں نے کراچی اور پاک کریسنٹ کلب کی نمائندگی کی، جو ظہیر عباس جیسے عظیم کھلاڑیوں کو پیدا کرنے کے لیے مشہور ہے۔ سہیل عباس تین بھائیوں میں سب سے بڑے ہیں۔ ان کے چھوٹے بھائی، راحیل عباس، بھی ایک سابق پیشہ ور فرسٹ کلاس کرکٹر ہیں۔
ابتدائی طور پر سہیل عباس نے اسکول اور پھر کالج کے لیے ہاکی کھیلنا شروع کی۔ شروع میں وہ بطور فارورڈ کھیلتے تھے، لیکن ان کی جسمانی ساخت اور غیر تسلی بخش کارکردگی کی وجہ سے ان کے نوجوان کوچ نے انہیں دفاعی پوزیشن پر منتقل کر دیا۔ اس سے مایوس ہو کر، سہیل عباس نے اپنی ڈریگ فلک کی صلاحیتوں کو بہتر بنانے کی مشق شروع کی تاکہ وہ اپنے کھیل میں اسکورنگ کے پہلو کو برقرار رکھ سکیں۔
1995 اور 1998 کے درمیان پیشہ ورانہ ہاکی لیگز میں متاثر کن کارکردگی نہ دکھا سکے۔ تاہم، 1995 میں کوئٹہ میں ہونے والی 18 ویں جونیئر نیشنل ہاکی U18 چیمپئن شپ میں ان کی متاثر کن کارکردگی نے انہیں پاکستان جونیئر اسکواڈ میں جگہ دلائی، جس نے جرمنی جونیئرز کے خلاف اپنی ہوم سیریز 2-2 سے برابر کی۔ انہیں نیدرلینڈز، جرمنی اور پولینڈ کے دورے کے لیے منتخب نہیں کیا گیا، اور اس کے بعد انہوں نے 1996 میں سنگاپور میں تیسرے جونیئر ایشیا کپ میں پاکستان کے لیے کھیلا۔ انہوں نے 1997 میں پاکستانی جونیئر ٹیم میں واپسی کی، ایک ایسی ٹیم جس نے جرمنی جونیئر کو چار لگاتار ٹیسٹ میچوں میں شکست دی۔
کیریئر کا آغاز اور عروج:
سہیل عباس نے فروری 1998 میں بھارت کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں بین الاقوامی سطح پر قدم رکھا۔ انہوں نے سیریز کے دوسرے میچ میں اپنا پہلا سینئر بین الاقوامی گول کیا، جو پاکستان نے 2-1 سے جیتا۔ سہیل عباس نے اپنے پیشہ ورانہ کیریئر کا آغاز پاکستان سے کیا اور ملیشیا، نیدرلینڈز، جرمنی اور بھارت میں پیشہ ورانہ ہاکی کھیلی، خاص طور پر ڈچ کلب HC روٹرڈم کے لیے۔
سہیل عباس نے پاکستان کے لیے 315 بین الاقوامی کیپس حاصل کیں اور 348 گول کیے، جس میں 21 ہیٹ ٹرکس شامل ہیں جو ایک بین الاقوامی ریکارڈ ہے۔ انہیں 1998، 2002، 2006 اور 2010 کے ایف آئی ایچ ہاکی ورلڈ کپ اور 2000، 2004 اور 2012 کے سمر اولمپکس میں اپنے ملک کی نمائندگی کرنے کا اعزاز حاصل ہے، جہاں وہ دونوں ورلڈ کپ اور اولمپکس میں پاکستان کے لیے ٹاپ اسکورر رہے۔
ریکارڈز اور کامیابیاں:
سہیل عباس کو ہاکی کے تمام وقت کے عظیم کھلاڑیوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ وہ بین الاقوامی فیلڈ ہاکی میں سب سے زیادہ گول کرنے والوں میں دوسرے نمبر پر ہیں اور جدید فیلڈ ہاکی (مصنوعی ٹرف) میں 348 بین الاقوامی گول کے ساتھ سب سے زیادہ گول کرنے والے کھلاڑی ہیں۔ وہ پینلٹی کارنرز پر اپنی مہلک فلکس کے لیے جانے جاتے تھے، جو گول کے سامنے زبردست درستگی اور رفتار کے ساتھ لگاتے تھے۔ انہیں وسیع پیمانے پر 'ڈریگ فلک کا بادشاہ' سمجھا جاتا ہے۔
8 اکتوبر 2004 کو سہیل عباس نے نیدرلینڈز کے پال لٹجن کا بین الاقوامی ہاکی میں سب سے زیادہ گول کرنے کا ریکارڈ توڑا، جنہوں نے اپنے کیریئر میں 267 گول کیے تھے۔ ان کے 300 گولوں میں ایک ڈبل ہیٹ ٹرک اور 21 ہیٹ ٹرکس شامل تھیں۔ 9 اگست 2012 تک، سہیل عباس نے 348 گول کے ساتھ اپنے ریکارڈ کو مزید بہتر بنایا۔
شادی اور نجی زندگی:
سہیل عباس کی نجی زندگی کے بارے میں بہت زیادہ معلومات عوامی سطح پر دستیاب نہیں ہیں، خاص طور پر ان کی شادی کے حوالے سے۔ تاہم، ان کی نجی زندگی کو نجی رکھنا ان کا ذاتی فیصلہ ہے، اور اس کا احترام کیا جانا چاہیے۔ جو معلومات دستیاب ہیں وہ ان کے کیریئر اور کھیلوں کی کامیابیوں پر زیادہ مرکوز ہیں۔
وراثت:
سہیل عباس نے پاکستانی ہاکی پر ایک گہرا اثر چھوڑا ہے۔ ان کی ڈریگ فلک کی مہارت اور گول اسکور کرنے کی صلاحیت نے کئی نوجوان ہاکی کھلاڑیوں کو متاثر کیا۔ وہ نہ صرف ایک عظیم کھلاڑی تھے بلکہ ایک رول ماڈل بھی تھے جنہوں نے لگن، محنت اور عزم کے ساتھ اپنے ملک کے لیے اعزاز حاصل کیا۔ سہیل عباس کا نام ہمیشہ پاکستانی ہاکی کی سنہری تاریخ میں ایک چمکتے ستارے کی طرح یاد رکھا جائے گا۔
0 Comments