Ticker

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

منی بیگم کا فنی سفر: غزل کی دنیا کی درخشندہ ستارہ

Munni-Begum-Biography



غزل کی ملکہ: منی بیگم کی سُروں بھری داستان! 

آج ہم ایک ایسی آواز کو سلام پیش کر رہے ہیں جس نے کئی دہائیوں تک اپنی شیریں گائیکی سے لاکھوں دلوں پر راج کیا – جی ہاں، ہم بات کر رہے ہیں پاکستان کی لیجنڈری غزل گائیکہ منی بیگم کی۔

مُنّی بیگم جن کا اصل نام نادرہ بیگم ہے مرشد آباد  مغربی بنگال، ہندوستان میں 1946 میں پیدا ہوئیں۔ سات بہن بھائیوں میں انکا نمبر تیسرا تھا۔  انہوں نے سب سے پہلے مشہور گلوکار استاد خواجہ غلام مصطفیٰ وارثی سے موسیقی کی تعلیم لینا شروع کی۔ چونکہ نادرہ بیگم بہت کم عمر اور چھوٹی سی تھیں تو اس مناسبت سے استاد خواجہ غلام مصطفیٰ وارثی نے انہیں منی بیگم کا نام دیا جو آج تک انکی پہچان بنا ہوا ہے، ، منی بیگم نے موسیقی کے اسکول میں تین سال تک تعلیم حاصل کی، اور اس کے بعد، اس نے اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔

منی بیگم اپنے والدین کے ہمرا  1950 کی دہائی کے اوائل میں ہندوستان سے مشرقی پاکستان ہجرت کر گئے تھے۔ مشرقی پاکستان بعد میں آزاد بنگلہ دیش بن گیا۔ 
منی بیگم نے پی اے ایف شاہین سکول، ڈھاکہ میں تعلیم حاصل کی۔ تاہم، وہ 1971 کی بنگلہ دیش کی آزادی کی جنگ کی وجہ سے کراچی، مغربی پاکستان منتقل ہوگئیں۔

ہجرت اور فنی سفر کا آغاز 🇵🇰

1971 میں منی بیگم ہجرت کر کے پاکستان آئیں اور کراچی کو اپنا مسکن بنایا۔ یہیں سے ان کے شاندار فنی سفر کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ ان کی آواز میں ایک ایسی گہرائی، سوز اور مٹھاس تھی جو انہیں دوسرے فنکاروں سے ممتاز کرتی تھی۔

مغنی بیگم نے 1970 کی دہائی میں کراچی، پاکستان میں گلوکارہ کے طور پر اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔ انہوں نے اپنی غزلوں کا پہلا البم 1976 میں ریلیز کیا۔ پھر انہوں نے کئی اور ہٹ غزلیں گائیں اور اس طرح وہ پاکستان کی معروف غزل گلوکارہ بن گئیں۔ اپنے نیوز میڈیا انٹرویوز میں وہ ہمیشہ تیز اور بے باک تھیں۔ اگرچہ اردو زبان ان کی مادری زبان نہیں تھی، لیکن انھوں نے سادہ زبان کے ساتھ غزلوں کے انتخاب میں ایک قابل ذکر ہنر دکھایا۔ یہ بہت موثر تھا اور عام لوگوں میں اس کی مقبولیت کی ایک وجہ بن گئی۔ ان کی مقبولیت کی دوسری وجوہات یہ تھیں کہ ان کی آواز واضح اور مضبوطی کی وجہ سے تھی۔   مُنّی بیگم کی آوازکے بہت سے رنگ تھے جو سننے والوں کو اپنے حصار میں جکڑ لیتے تھے؟۔ منی بیگم ہارمونیم بھی بہت اچھا بجاتی تھیں۔ 

غزل کی دنیا میں راج 🎤

منی بیگم کو خاص طور پر غزل گائیکی میں ان کی مہارت اور منفرد انداز کے لیے جانا جاتا ہے۔ انہوں نے کئی لازوال غزلیں گائیں جو آج بھی سننے والوں کے دلوں میں گھر کر جاتی ہیں۔ ان کی گائیکی میں ایک خاص طرح کی اداسی، پختگی اور روح کو چھو لینے کی کیفیت ہوتی تھی جو انہیں "غزل کی ملکہ" کا خطاب دلانے کا باعث بنی۔

ان کی کچھ مشہور اور سدا بہار غزلیں یہ ہیں:

  • "ایک بار مسکرا دو"
  • "تمہارے شہر کا موسم بڑا سہانا لگے"
  • "لزت غم بڑھا دیجئے"
  • "آوارگی میں حد سے گذرجانا چاہیے"
  • "مریض محبت انہی کا فسانہ"

انہوں نے میر تقی میر، فیض احمد فیض، احمد فراز اور پروین شاکر جیسے عظیم شعراء کے کلام کو اپنی آواز سے امر کر دیا۔ منی بیگم نے نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی سطح پر بھی اپنے فن کا لوہا منوایا اور کئی بین الاقوامی دورے کیے۔

ایک سادہ اور پروقار شخصیت 🙏

منی بیگم اپنی سادگی، عاجزی اور پروقار شخصیت کے لیے بھی جانی جاتی ہیں۔ وہ شہرت اور دولت کی چکاچوند سے دور رہ کر صرف اپنے فن پر توجہ دیتی تھیں۔ ان کی زندگی اور کیریئر نئے آنے والے فنکاروں کے لیے ایک مثال ہے۔

ایوارڈز اور اعزازات 🏆

منی بیگم کو ان کی بے مثال خدمات کے اعتراف میں کئی ایوارڈز سے نوازا گیا۔ ان میں حکومت پاکستان کی طرف سے دیا جانے والا اعلیٰ ترین سویلین اعزاز "تمغہ حسن کارکردگی"  بھی شامل ہے، جو ان کے فن کی عظمت کا بہترین ثبوت ہے۔

منی بیگم نے اپنی گائیکی سے غزل کو عام لوگوں تک پہنچایا اور اسے ایک نئی زندگی دی۔ وہ نہ صرف ایک عظیم گلوکارہ ہیں بلکہ غزل کی ایک زندہ جاوید تاریخ بھی ہیں۔ ان کی آواز آج بھی لاکھوں دلوں کو سکون اور خوشی دیتی ہے۔

منی بیگم کی شادی 1980 کی دہائی میں ہوئی تھی جس کے نتیجے میں 1998 میں طلاق ہوگئی۔ ان کی دو بیٹیاں منیبہ حسنین اور منارا عمر اور ایک بیٹا سید محمد اسد علی ہیں۔ 2016 تک، وہ شکاگو، ریاستہائے متحدہ میں رہتی ہیں اور باقاعدگی سے پرفارم نہیں کرتی ہیں۔ 

آپ کی منی بیگم کی پسندیدہ غزل کون سی ہے؟ کمنٹس میں ضرور بتائیں! 👇



You May Read This Also

Post a Comment

0 Comments