کلاس فیلوز اور زندگی کی
بازیگریاں
(آزاد نظم)
ہم سب
کبھی لکڑی کی سخت بینچوں پر
ساتھ ساتھ بیٹھا کرتے تھے،
ایک جیسے یونیفارم،
ایک جیسے خواب،
ایک جیسے گِلے،
ایک جیسی استادوں سے شکایتیں۔
ہمیں گمان تھا۔
زندگی انصاف کرے گی،
جو اوّل آئے گا،
وہی آگے بھی بڑھے گا۔
محنت، ہمیشہ پھل دے گی
اور ناکامی ہمیشہ ناکام ہی رہے گی۔
لیکن۔۔۔
زندگی کلاس روم نہیں ہے،
یہ ایک بازیگر ہے،
چالاک، شریر،
کہانی میں موڑ ڈالنے والی۔
پھر برسوں بعد،
کبھی شادی میں،
کبھی جنازے پر،
کبھی کسی ائرپورٹ یا سپر مارکیٹ میں
کبھی محض واٹس ایپ پر
ہم اچانک ملتے ہیں —
اور آنکھیں وہ کچھ دیکھتی ہیں
جس کی کسی نے ہمیں خبر نہ دی۔
وہ جو کبھی ہوم ورک نہ کرتا تھا
آج کوٹھیوں کا مالک ہے،
اور جو ہر انعام جیتتا تھا
ابھی تک کسی گوشے میں،
خود کو ڈھونڈ رہا ہے۔
وہ جو خاموش رہتا تھا
اب فیصلے سناتا ہے،
اور جو سب کو بولنا سکھاتا تھا
خامشی میں گم ہے،
کسی اَن دیکھے موقعے کا منتظر۔
تب ہم دل سے پوچھتے ہیں:
یہ سب کیسے ہوا؟
کسی نے بتایا نہ تھا
کہ قسمت بھی ایک کردار ہے،
کہ ذہانت کافی نہیں
رابطے بھی دروازے کھولتے ہیں،
کہ کچھ لوگ بہترین نہیں،
بس وقت کے سنگی نکل آتے ہیں۔
زندگی سوالوں کے پرچے نہیں چیک کرتی —
یہ تو بس لُوڈو کھیل کے ڈائس کی مانند ہے،
اور اکثر اوقات،
اس کا ہر جواب
کسی اور زبان میں ہوتا ہے۔!
مگر ایک خوبصورت سچ یہ بھی ہے:
جتنا بھی بکھرے ہوں،
جب ہم جماعت ملتے ہیں،
تو وقت پیچھے ہٹ جاتا ہے۔
نہ القاب باقی رہتے ہیں،
نہ دولت بولتی ہے —
بس ہنسی گونجتی ہے،
پرانے نام، پرانی باتیں،
وہ اُستاد جنہیں کبھی
نہ بھولنے کا دعویٰ تھا
اب یاد کرنے میں وقت لگتا ہے۔
اور انہی لمحوں میں
ہم لوٹ جاتے ہیں
اس دور میں
جہاں صرف خواب ہوتے تھے
اور زندگی کی تلخیاں ابھی
داخل نہ ہوئی تھیں۔
شاید یہی ہے اصل سبق کہ:
کامیاب وہی نہیں
جس کے پاس سب کچھ ہو،
بلکہ وہ بھی
جس کے دل میں
یاد ابھی باقی ہو۔
0 Comments