Ticker

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

کلاشنکوف کی تاریخ


میخائل تیموفیویچ کلاشنکوف  روسی موجد، فوجی انجینئر اور دنیا کے مشہور ترین خودکار ہتھیار، اے کے-47  کے خالق تھے۔ ان کی زندگی ایک عام کسان کے بیٹے سے لے کر دنیا کے سب سے مہلک ہتھیار بنانے والے تک کا حیرت انگیز سفر ہے۔ ان کی ایجاد نے نہ صرف جنگوں کی نوعیت بدلی بلکہ دنیا بھر میں عسکری میدان میں انقلاب برپا کر دیا۔:
میخائل کلاشنکوف 10 نومبر 1919 کو سوویت یونین کے علاقے التائی کرائی، کوریا نامی ایک دیہی گاؤں میں پیدا ہوئے۔ وہ ایک کسان خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے والد تیموفی کلاشنکوف کو 1930ء کی دہائی میں اسٹالن کی زراعتی پالیسیوں کے تحت "کُلاک" قرار دے کر جلاوطن کر دیا گیا، جس کے باعث خاندان کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

میخائل نے نوجوانی میں ہی مکینیکل آلات میں دلچسپی لینا شروع کر دی تھی۔ 1938 میں وہ سوویت فوج میں شامل ہوئے، جہاں انہیں ٹینک ڈرائیور اور مکینک کی حیثیت سے خدمات انجام دینے کا موقع ملا۔

اے کے-47، جسے کلاشنکوف بھی کہا جاتا ہے، دنیا کی سب سے مشہور اور وسیع پیمانے پر استعمال ہونے والی رائفل ہے۔ اس کی کہانی دوسری جنگ عظیم کے دوران شروع ہوتی ہے۔کہا جاتا ہے کہ دنیا میں دس کروڑ کے لگ بھگ کلاشنکوف بنائی گئ ہیں۔

دوسری جنگ عظیم اور نئے ہتھیار کی ضرورت: دوسری جنگ عظیم کے دوران، سوویت یونین نے محسوس کیا کہ ان کی موجودہ انفنٹری رائفلیں، جیسے کہ موسن-ناگنٹ، جرمن فوج کی جدید اسالٹ رائفلوں کے مقابلے میں کمزور ہیں۔ جرمن فوج نے StG 44 جیسی رائفلیں استعمال کرنا شروع کر دی تھیں جو ایک ہی وقت میں آٹومیٹک فائر کی صلاحیت اور رائفل کی طاقتور گولی کو یکجا کرتی تھیں۔ اس کے نتیجے میں، سوویت فوج کو بھی ایک ایسی ہی رائفل کی ضرورت محسوس ہوئی۔

میخائل کلاشنکوف :  میخائل تیموفیوچ کلاشنکوف ایک نوجوان سوویت فوجی انجینئر تھا ۔ کلاشنکوف خود بھی جنگ میں لڑ چکا تھا اور اس نے میدان جنگ میں موجودہ ہتھیاروں کی کمزوریوں کو قریب سے دیکھا تھا۔ اس نے غور کیا کہ جرمن فوجیوں کے پاس ان سے بہتر آٹو میٹک رائفلز ہیں جس سے روسی فوجیوں کا بہت نقصان ہوتا ہے۔ ایک بار جنگ کے دوران میخائل  کلاشنکوف کندھے پر گولی لگنے سے زخمی ہو گیا اور اسے ہسپتال داخل کروا دیا گیا۔ وہاں ڈھیروں روسی زخمی فوجی موجود تھے۔ ایک فوجی نے ایک دن میخائل  کلاشنکوف سے کہا کہ ہمارے پاس اچھی رائفلز کیوں نہیں ہیں اور اگر ہمارے پاس اچھی آٹومیٹک رائفل ہو تو ہم دشمن کا اچھا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ ہسپتال کے بستر پر سوچنے کے علاوہ کوئی کام نہیں تھا  تو میخائل  کلاشنکوف نے ایک ایسی نئی رائفل کا تصور کرنا شروع کیا جو خودکار، کم وزن، قابل اعتماد، سادہ اور مختلف موسمی حالات میں بھی کام کر سکے۔

ہسپتال سے واپسی پر میخائل  کلاشنکوف نے ایک نئی رائفل کے ڈیزائن پر کام شروع کیا ۔ اس نے بہت سے ڈیزائن تیار کئے جو کہ مسترد ہوتے رہے۔ بار بار کی ناکامی سے  میخائل  کلاشنکوف دل برداشتہ ضرور تھا پر اس نے عہد کیا کہ وہ ہمت نہیں ہارے گا۔ 1944  میں ایک مقابلے کا انعقاد کیا گیا جس میں بہت سے انجینئرز نے اپنی رائفلز مقابلے کے لئے پیش کیں۔  میخائل  کلاشنکوف کو بھی مقابلے میں مدعو کیا گیا۔

میغائل کلاشنکوف نے  نیم خودکار، گیس سے چلنے والی، لانگ اسٹروک پسٹن کاربائن کے ساتھ ڈیزائن کے مقابلے میں حصہ لیا مگر وہ مقابلہ نہ جیت سکا۔ اس شکسست نے  میغائل کلاشنکوف کو جزباتی طور پر شدید صدمہ پہنچایا مگر اس نے پھر ہمت نہیں ہاری اور نئے ڈیزائن پر کام شروع کیا۔

سال 1946  میں، ایک نئی رائفل تیار کرنے کے لیے ایک نئے ڈیزائن کا مقابلہ شروع کیا گیا۔ کلاشنکوف نے ایک گیس سے چلنے والی رائفل جس میں بیرل کے اوپر ایک شارٹ اسٹروک گیس پسٹن تھا، اس کی 1944 کی کاربائن کی طرح ایک خودکار میکانزم کے ساتھ  30 راؤنڈ پر مشتمل میگزین تھا۔ اس بار کلاشنکوف کا ڈیزائن کو دوسرے ڈیزائنوں کے ساتھ مقابلے کے دوسرے راونڈ کے لئے چن لیا گیا۔ 

 میخائل کلاشنکوف کے اس ڈئزائن کا اے کے 46 کا نام دیا گیا۔ میں ایک روٹری بولٹ، علیحدہ ٹرگر یونٹ ہاؤسنگ کے ساتھ دو حصوں کا رسیور، دوہری کنٹرول ، اور ہتھیار کے بائیں جانب واقع ایک نان  چارجنگ ہینڈل تھا۔ اس ڈیزائن میں ایس ٹی جی 44 سے بہت سی مماثلتیں تھیں 1946 کے اواخر میں، جب رائفلز کا تجربہ کیا جا رہا تھا، کلاشنکوف کے ایک معاون، الیگزینڈر زیتسیف نے رائفل کو بہتر بنانے کے لیے ایک بڑے نئے ڈیزائن کا مشورہ دیا۔ پہلے پہل، کلاشنکوف ہچکچاتے تھے، کیونکہ ان کی رائفل پہلے ہی اپنے حریفوں سے بہتر تھی۔ تاہم، بالآخر زیتسیف کلاشنکوف کو قائل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔اور پھر میخایل کلاشنکوف اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا اور انکے ڈیزائن کو منظور کر لیا گیا اور اس ڈیزائن کا نام میخائل کلاشنکوف کے نام آوتومیت کلاشنکوف 47 یعنی اے کے 47 رکھا گیا۔ 47 اس سال یعنی 1947 کی مناسبت سے رکھا گیا اور اب تک یہی نام چل رہا ہے۔

اے کے-47 کا ڈیزائن اور ارتقاء: کلاشنکوف نے کئی ابتدائی پروٹوٹائپ تیار کیے، جن میں سے ایک اے کے 46 کہلاتا تھا۔ یہ ڈیزائن بالآخر بہتر ہوا اور 1947 میں، انہوں نے اپنا حتمی ڈیزائن پیش کیا، جسے   (1947 ماڈل کی کلاشنکوف آٹومیٹک رائفل) کا نام دیا گیا، جسے مختصراً اے کے-47 کہا جاتا ہے۔

اے کے-47 کا ڈیزائن اپنی سادگی اور مضبوطی کے لیے جانا جاتا تھا۔ اس میں گیس سے چلنے والا آپریٹنگ سسٹم استعمال کیا گیا تھا، جو اسے انتہائی قابل اعتماد بناتا تھا اور مٹی، پانی یا دیگر سخت حالات میں بھی کام کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ اس کے پرزے آسانی سے جدا اور دوبارہ جوڑے جا سکتے تھے، جس کی وجہ سے اسے میدان میں صاف کرنا اور مرمت کرنا آسان تھا۔ اس میں 7.62x39ایم ایم کی انٹرمیڈیٹ کارتوس استعمال ہوتی تھی، جو رائفل کی گولی کی طاقت اور سب مشین گن کی طرح آٹومیٹک فائر کی صلاحیت کا بہترین امتزاج تھی۔

فوجی استعمال اور عالمی پھیلاؤ: 1949 میں، اے کے-47 کو باضابطہ طور پر سوویت فوج میں شامل کر لیا گیا۔ جلد ہی، اس کی سادگی، کم قیمت اور کارکردگی کی وجہ سے یہ دنیا بھر میں مقبول ہو گئی۔ سوویت یونین نے اپنے اتحادی ممالک اور دوست ریاستوں کو بڑی تعداد میں اے کے-47 فراہم کیں، اور بہت سے ممالک نے اس کے لائسنس کے تحت اپنی پیداوار شروع کر دی۔

اے کے-47 کی مقبولیت کی وجوہات: اے کے-47 کی عالمی مقبولیت کی کئی وجوہات ہیں:

  • سادگی اور مضبوطی: اس کا ڈیزائن بہت سادہ ہے جس میں کم حرکت پذیر پرزے ہیں، جس کی وجہ سے یہ انتہائی قابل اعتماد ہے اور خراب ہونے کا امکان کم ہوتا ہے۔
  • قابل اعتمادی: یہ سخت ترین حالات میں بھی کام کر سکتی ہے، چاہے وہ گرمی ہو، سردی ہو، مٹی ہو یا پانی۔
  • کم قیمت: اس کی پیداوار نسبتاً سستی ہے جس کی وجہ سے یہ بڑے پیمانے پر دستیاب ہے۔
  • استعمال میں آسانی: اسے چلانا اور برقرار رکھنا آسان ہے، یہاں تک کہ کم تربیت یافتہ افراد بھی اسے استعمال کر سکتے ہیں۔
  • آٹومیٹک فائر کی صلاحیت: یہ سنگل شاٹ اور فل آٹومیٹک دونوں طریقوں سے فائر کر سکتی ہے، جو اسے مختلف جنگی حالات کے لیے موزوں بناتی ہے۔

اے کے-47 کی میراث اور اثر: اے کے-47 20 ویں صدی کے سب سے اہم ہتھیاروں میں سے ایک بن گئی۔ اس نے دنیا بھر کے تنازعات میں اہم کردار ادا کیا ہے اور یہ بہت سے ممالک کی مسلح افواج اور باغی گروہوں دونوں کے زیر استعمال رہی ہے۔ اس کی تصویر بہت سے ممالک کے جھنڈوں اور نشانات پر بھی نظر آتی ہے، جو اس کی عالمی موجودگی اور اثر کو ظاہر کرتی ہے۔

میخائل کلاشنکوف نے اگرچہ اس ہتھیار کو دفاع کے لیے بنایا تھا، لیکن اس کا وسیع پیمانے پر پھیلاؤ اور استعمال تنازعات اور تشدد کا ایک افسوسناک پہلو بھی رہا ہے۔ کلاشنکوف نے خود بھی اپنی ایجاد کے اس استعمال پر افسوس کا اظہار کیا تھا۔

آج بھی، اے کے-47 اور اس کی مختلف شکلیں دنیا بھر میں استعمال ہو رہی ہیں، جو اس کی دیرپا میراث اور ڈیزائن کی افادیت کا ثبوت ہیں۔ یہ رائفل اپنی سادگی، مضبوطی اور قابل اعتمادی کی وجہ سے آج بھی اتنی ہی مقبول ہے جتنی اپنی تخلیق کے وقت تھی۔

میخائل کلاشنکوف کی موت:میخائل کلشنکوف نے لمبی زندگی پائی۔ اپنی زندگی کے آخری سالوں میں میخائل جسمانی بیماریوں کے ساتھ ساتھ ذہنی دباو کا شکار بھی تھے۔ کسی وقت پر اپنی ایجاد پر فخر کرنے والا کلاشنکوف آج پچھتاوے کا درد برداشت کر رہا تھا۔ یہ خیال اسے سونے نہیں دیتا تھا کہ اسکی بنائی ہوئی بندوق سے کروڑوں لوگ موت کے منہ میں چلے گئے۔ اسے اس کے ساتھی سمجھاتے تھے کہ آپ نے وطن کی خدمت کی ہے مگر انکے اندر کی بے چینی انہیں ہر پل تڑپا رہی تھی۔ اسی تڑپ میں انہوں نے مرنے سے چند ماہ قبل ایک خط  روسی آرتھوڈوکس چرچ کے رہنما پیٹریاارک کیرل کو لکھا تھا جس میں انہوں نے اپنی ایجاد اور اس سے ہونے والی اموات پر پچھتاوے کا اظہار کیا تھا۔ میخائل کلاشنکوف نے خط میں لکھا تھا کہ "میرے پاس ایک ہی حل طلب سوال ہے: اگر میری رائفل نے لاکھوں لوگوں کی جان لی ہے تو کیا میں انکی موت کا زمہ دار ہوں اور کیا ایک عیسائی ہونے کے ناتے خدا انکو معاف کرے گا؟...  طویل بیماری کے بعد، کلاشنکوف کو 17 نومبر 2013 کو ادمورتیا کے دارالحکومت ایزیوسک میں  ہسپتال میں داخل کرایا گیا۔ وہ 23 دسمبر 2013 کو 94 سال کی عمر میں گیسٹرک ہیمرج سے انتقال کر گئے۔ انکی موت کے ایک ماہ کے بعد  جنوری 2014 میں، انکا خط، روسی روزنامہ ازویسٹیا نے شائع کیا تھا۔ شائع شدہ خط سے ترجمہ کرتے ہوئے وہ کہتا ہے،  میخائل کلاشنکوف کا خط اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ جوانی میں اپنی ایجاد پر فخر کرنے والے میخائل کلاشنکوف کو اپنی ایجاد پر بہت پچھتاوا تھا اور اسی پچھتاوے کے ساتھ ہی وہ اس دنیا سے چلا گیا تھا۔

You May Read This Also

Post a Comment

0 Comments