وارانسی، جسے بنارس بھی کہا جاتا ہے، ہندوؤں کے لیے ایک انتہائی مقدس شہر ہے۔۔ ہندو عقیدے کے مطابق، وارانسی بھگوان شیو کا گھر ہے،
جو کہ ہندوؤں کے اہم ترین دیوتاؤں میں سے ایک ہیں۔ ہندوؤں کا ماننا ہے کہ وارانسی میں مرنے سے انسان کو موکش (نجات) حاصل ہوتا ہے اور
وہ جنم کے بندھن سے آزاد ہو جاتا ہے۔ اسی لیے بہت سے ہندو اپنی زندگی کے آخری ایام وارانسی میں گزارنا چاہتے ہیں۔
وارانسی گنگا ندی کے کنارے واقع ہے، جو کہ ہندوؤں کی سب سے مقدس ندی ہے۔ گنگا میں اشنان کرنے سے گناہوں سے پاک ہونے کا عقیدہ ہے۔
اس لئے ہر ہندو کی خواہش ہوتی ہے کہ مرنے کے بعد اس ک لاش کو اس گھاٹ پر چتا دی جائے۔ بہت سے بیمار لوگ جو مرنے والے ہوتے ہیں
اپنی موت سے پہلے یہاں ڈیرہ ڈال لیتے ہیں تاکہ مرنے کے فورا بعد ان کی چتا کو اس متبرک مقام پر آگ نصیب ہو سکے اس مقصد کے لئے
گھاٹ کنارے باقاعدہ اشرم موجود ہیں جہاں سستے کمرے بھی دستیاب ہیں جہاں مریض اور اس کے ساتھ آئے رشتے دار قیام کرتے ہیں۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مقدس جگہ ہونے کے ناتے یہاں صفائی کا خاص اہتمام کیا جاتا مگر اگر یہ کہا جائے کہ یہ بھارت کی گندی، بدبوداار اور
خوفناک ترین جگہ میں سے ایک ہے تو غلط نہ ہو گا۔ بنارس کے مختلف گھاٹوں پر روزانہ سینکڑوں چتائوں کو آگ لگائ جاتی ہے جہاں ہر
وقت جلے ہوئے گوشت کی چراند پھیلی رہتی ہے۔ آنے والی لاشوں کے رش اور لکڑی مہنگی ہونے اور زیادہ سے زیادہ پیسے کمانے کے
چکر میں اکثراوقات چتا کو جلانے والے مرنے والوں کے گھر والوں کے جانے کے بعد لکڑی بچانے کے لئے ادھ جلی لاش کو ہی کھینچ
تان کر گنگا برد کردیتے ہیں اور وہاں آپکو جگہ جگہ ادھ جلی لاشیں پانی میں تیرتی نظر آتی ہیں ۔ بعض اوقات کنارے سے لگ جانے والی
لاشوں کو کتے بھنبھؤڑتے ہیں۔
جب لاشیں جل جاتی ہیں تو ان لاشوں کی راکھ گنگا میں بہا دی جاتی ھے اور بھارت کے دوسرے علاقوں سے بھی لوگ اپنے مرنے والوں کی
راکھ یہاں بہانے لے آتے ہیں جس سے گنگا کے پانی میں شدید آلودگی شامل ہو جاتی ہے اور ہندویاتری اسی پانی میں خود کو غوطے دے کر
اشنان(نہاتے) کرتے ہیں اور اپنے پاپ (گناہ) دھوتے ہیں۔ اس مقام پر گنگا دنیا کا غلیظ ترین دریا بن جاتا ھے ۔
بنارس کے یہ چتا گھاٹ زمین پر جہنم کا منظر پیش کرتے ہیں۔ جہاں کہیں ارتھیاں پڑی ہوتی ہیں تو کہیں چتا میں مردے کی لاش آگ سے اکڑ
رہی ہوتی ھے ۔ لاشوں کو آگ لگانے کے لئے لکڑی کے بیوپاری وہاں منہ مانگے دام مانگتے ہیں اور چتا کو آگ لگانے والے بھی مجبوریوں
کا فائدہ اٹھا رہے ہوتے ہیں۔ کہیں لاش جل کانے کے بعد بانسوں کی مدد سے کھوپڑی پر ضربیں لگا کر اس کے ٹکڑے کہے جا رہے ہوتے ہیں۔
رات میں یہ منظر مزید بھیانک ہو جاتا ھے جب جگہ جگہ جلتی چتائیں اور دھوتی میں ملبوس افراد چتائوں کے گرد جمع ہوتے ہیں۔ ہر طرف راکھ کوئلے
آگ کیچڑ اور بدبو کا راج ہوتا ھے ۔
اللہ کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں مسلمان پیدا کیا اور اسلام نے انسان کے لئے قبر کا وہ راستہ منتخب کیا ہے جس سے انسان کا بھرم بھی رہ جائے
اور اس کی پاکیزگی بھی برقرار رہے۔
مزید آرٹیکل پڑھیں
0 Comments