یہ کہانی ایک ایسے فنکار کی ہے جس نے ہنسی کو اپنی پہچان بنایا مگر دل کے اندر چھپے زخم کسی کو نہ دکھا سکا۔
۔4 اگست 1942 کوساہیوال کی پرانی گلیوں میں پیدا ہونے والا رفیع خاور بچپن ہی سے دوسروں کو ہنسانے کا شوقین تھا۔ وہ جب بھی محفل میں بیٹھتا تو دوست اس کی باتوں پر قہقہے لگاتے نہ تھکتے۔ مگر یہ مسکراہٹیں اس کے لیے بس آغاز تھیں۔ قسمت نے اس کے لیے بڑا مقام لکھ رکھا تھا۔
جوانی میں اس نے لاہور کا رخ کیا، خواب آنکھوں میں اور جیب میں ہمت کا زادِ راہ۔ وہ دن یاد آتا ہے جب پہلی بار پاکستان ٹیلی ویژن کے اسٹوڈیو کے گیٹ پر کھڑا تھا۔ کمال احمد رضوی کے ڈرامے "آؤ نوکری کریں" میں موقع ملا تو وہ اپنی فطری معصومیت اور بے ساختہ مزاح سے سب کا دل جیت گیا۔ کچھ ہی عرصے بعد "الف نون" شروع ہوا اور ننھا کا چہرہ گھروں میں پہچان بن گیا۔ اس کا ہر مکالمہ لوگوں کے دلوں میں خوشی کے چراغ جلا دیتا۔
مگر ننھا صرف ٹی وی تک محدود نہ رہا۔ 1966 میں فلم "وطن کا سپاہی" سے فلمی سفر کا آغاز ہوا اور پھر شہرت کے دروازے کھلتے چلے گئے۔ "نوکر"، "ٹھہکا پہلوان"، "دبئی چلو"، "سوہرا تے جوائی"… ہر فلم میں اس کا کردار گویا جان ڈال دیتا۔ علی اعجاز کے ساتھ اس کی جوڑی بے مثال تھی۔ دونوں جب اسکرین پر آتے تو سینما ہال تالیوں سے گونج اٹھتے۔ لاہور کے ایک سینما میں اس کی فلم "سالا صاحب" مسلسل 300 ہفتے چلتی رہی، اور لوگ ہر بار اسی شوق سے ٹکٹ خریدتے جیسے پہلی بار دیکھ رہے ہوں۔
اس کامیابی کے سفر میں ننھا کا دل بھی ایک محبت کی کہانی میں الجھ گیا۔ وہ اداکارہ نازلی کے قریب آیا۔ نازلی کی مسکراہٹ اس کے لیے زندگی کی سب سے قیمتی شے تھی۔ مگر یہ محبت ایک خواب ہی رہی۔ حالات اور فاصلے دونوں کے بیچ ایسی دیوار کھڑی ہو گئے جسے گرایا نہ جا سکا۔ ننھا کے لیے یہ ایک ایسا زخم تھا جو وقت کے ساتھ گہرا ہوتا گیا۔
باہر سے وہ اب بھی سب کو ہنساتا رہا، مگر دل کی تنہائی بڑھتی گئی۔ 2 جون 1986 کی وہ اداس صبح آئی جب لاہور کے ایک کمرے میں اس نے اپنی زندگی کا چراغ بجھا دیا۔ میز پر رکھا ایک خط اس کی آخری نشانی تھا۔ اس میں لکھا تھا کہ یہ فیصلہ اس کا اپنا ہے، کسی کو موردِ الزام نہ ٹھہرایا جائے۔ مگر یہ سوال آج بھی اس کے چاہنے والوں کے دلوں میں زندہ ہے کہ کیا واقعی اس کی ہنسی کے پیچھے اتنا دکھ چھپا ہوا تھا؟
ننھا کے جانے کے بعد فلمی دنیا جیسے ساکت ہو گئی۔ وہ اپنے فن کا بادشاہ تھا، ایسا بادشاہ جس نے اپنی رعایا کو مسکراہٹیں دیں مگر خود تنہا رہا۔ آج جب بھی "الف نون" کے مناظر ٹی وی اسکرین پر آتے ہیں، وہی مخصوص ہنسی سنائی دیتی ہے اور دل کہتا ہے کہ ننھا ابھی یہیں ہے۔
اپنی زندگی کے دوران ننھا نے کئی اعزازات حاصل کیے۔ اسے متعدد بار نگار ایوارڈز سے نوازا گیا، جن میں بہترین کامیڈین اور بہترین معاون اداکار کے ایوارڈ شامل تھے۔ ان ایوارڈز کے ساتھ ناظرین کی محبت بھی اس کے لیے سب سے بڑا اعزاز تھی، جو آج بھی اس کی یاد کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔
یہ کہانی اس فنکار کی ہے جس نے ہنسی کو زندگی کا ہتھیار بنایا، مگر دل کے اندر کی خاموش جنگ ہار گیا۔ رفیع خاور عرف ننھا اب بھی زندہ ہے—ان لمحوں میں جو اس نے ہماری یادوں میں چھوڑ دیے ہیں۔
0 Comments