ایسے افراد کے رویے میں بناوٹ، چاپلوسی اور غیر حقیقی خلوص دکھائی دیتا ہے۔ وہ خوشی کے موقعوں پر پہنچتے ہیں، تحائف دیتے ہیں اور بار بار یہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ ہمیشہ ساتھ تھے، چاہے حقیقت کچھ اور ہو۔ دوسری طرف کچھ رشتے دار اور معاشرتی افراد ایسے بھی ہوتے ہیں جو حسد کا شکار ہو جاتے ہیں۔ وہ اس کی کامیابی پر خوش ہونے کے بجائے اندر ہی اندر جلتے ہیں اور مختلف قسم کی باتیں بنانا شروع کر دیتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے "پتہ نہیں کہاں سے اتنے پیسے آ گئے"، تو کوئی الزام تراشی کرتا ہے کہ "ضرور کوئی غلط طریقہ اپنایا ہوگا"۔ ایسے لوگ کامیاب شخص کی شخصیت، لباس، سوشل میڈیا پوسٹس یا معمولی غلطیوں کو بھی ہدفِ تنقید بناتے ہیں، تاکہ کسی نہ کسی طرح اس کی خوشیوں کو ماند کیا جا سکے۔
معاشرہ بھی اس تبدیلی کو آسانی سے قبول نہیں کرتا۔ اگر وہ شخص اپنی دولت کو بہتر زندگی گزارنے، گھر بنانے، اچھی گاڑی رکھنے یا اچھے لباس پہننے پر خرچ کرے، تو اسے "دکھاوا" کہا جاتا ہے۔ جبکہ اگر وہ خاموشی سے زندگی گزارے تب بھی لوگ اسے "مغرور" کہنے سے باز نہیں آتے۔ حقیقت یہ ہے کہ معاشرہ اکثر غریب کی محنت کو تسلیم کرنے کے بجائے اس کی کامیابی پر شک کرتا ہے۔ وہ لوگ جو پہلے ساتھ تھے، وہ اب پیچھے ہٹنے لگتے ہیں کیونکہ وہ اس کے مقام کو برداشت نہیں کر پاتے۔
ایسے حالات میں انسان خود کو تنہائی کا شکار محسوس کرتا ہے۔ وہ سمجھ جاتا ہے کہ اس کے گرد زیادہ تر لوگ اس کی دولت کے دلدادہ ہیں، نہ کہ اس کی شخصیت کے۔ اس کے لیے سب سے بڑی آزمائش یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنی عاجزی، خلوص، اخلاق اور اصل پہچان کو کیسے برقرار رکھے۔ وہ سوچتا ہے کہ کون اس کے اصل دکھ سکھ کا ساتھی تھا اور کون صرف وقتی مفاد کے لیے قریب آیا۔ اگر وہ شخص عقل و دانش سے کام لے، تو وہ اصلی اور جعلی رشتوں میں فرق سمجھنے لگتا ہے، اور پھر اپنی زندگی ان لوگوں کے ساتھ گزارنے کی کوشش کرتا ہے جو سچے دل سے اس کی خوشی میں خوش ہوتے ہیں۔
رجب بٹ بھی ایک ایسا ہی پاکستانی ہے جس سے یہ جرم سرزد ہو گیا کہ وہ اللہ کے فضل سے امیر ہو گیا۔ بے ۔ بے تحاشہ پیسہ آگیا۔ اور پھر خدا کا فضل ایسا کہ لوگ اس کے نام سے مواد بنا کر امیر ہونا شروع ہو گئے۔ اچھا گھر لے لیا۔ اچھی گاڑی رکھ لی بس پھر وہی ہو جو ایسے مجرموں کے ساتھ ہوتا ہے۔ لوگ ہاتھ دھو کر اس کے پیچھے پڑ گئے۔ ہر روز کوئی نہ کوئی مسئلہ اور کیس اس کے لئے تیار۔ اس میں شک نہیں کہ رجب بٹ نے کچھ غلطیاں بھی کی ہیں پر جتنا اسکو ستایا گیا ہے کوئی اور ہوتا تو سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر بیٹھ جاتا پر شاباش ہے اس بچے کو ابھی تک اپنے پاوں پر کھڑا ہے۔
آخر میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ دولت کے ساتھ ساتھ آزمائش بھی بڑھتی ہے۔ اصل کامیاب وہی ہے جو دولت کے باوجود عاجزی، انکساری، محبت اور سچائی پر قائم رہے، اور اپنے اردگرد کے حسد بھرے رویوں کو نظر انداز کر کے اپنی محنت سے حاصل کی گئی خوشیوں کو سنبھال کر رکھے۔
0 Comments