Ticker

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

کراچی... وہ جو دل کے بہت قریب تھا ہے اور رہے گا

karachi-history


کراچی... وہ جو دل کے بہت قریب تھا ہے اور رہے گا۔

روشنیوں کا شہر کراچی کبھی  صرف ایک شہر نہیں تھا، وہ ایک جذبہ، ایک خوشبو، ایک مسلسل دھڑکن تھی جو ہر گلی، ہر چوراہے، اور ہر چائے کے ہوٹل پر سانس لیتی تھی۔ ایک ماں تھی جو ہر کسی کو اپنی آغوش میں لے لیتی تھی۔ 

کبھی کراچی صرف ایک شہر نہیں تھا، وہ ایک احساس تھا۔ ایک ایسی دھڑکن، جو لالو کھیت کی گلیوں سے شروع ہو کر کیماڑی کی بندرگاہ پر جا کر سمندر سے جا ملتی تھی۔ وہ شہر، جہاں زندگی سادہ، محبت بےلوث، اور وقت مہربان ہوتا تھا۔

یاد ہے وہ دن جب صدر کی فٹ پاتھوں پر کتابیں بکھری ہوتی تھیں، اور ریگل چوک پر بیٹھ کر چائے پینے کے ساتھ سیاست، شاعری اور خوابوں کی باتیں ہوتی تھیں؟ جہاں ایمپریس مارکیٹ کے آس پاس زندگی ہر وقت رواں دواں رہتی تھی، اور لوگ ایک دوسرے کو پہچانتے تھے۔

لیاری کی گلیوں سے اٹھتی قوالیوں کی آواز، گولی مار کے ہوٹلوں کی خوشبو، کھارادر کے چھوٹے چھوٹے دروازے، جن کے پیچھے پورا کراچی بستا تھا۔ گارڈن، رنچھوڑ لائن، برنس روڈ، صدر، سولجر بازار — یہ صرف علاقے نہیں تھے، کراچی کی پہچان تھے۔

نیپئر روڈ کی پرانی عمارتیں، جن کے در و دیوار وقت کی گواہی دیتے تھے، اور بوہری بازار کی رونق، جہاں سے بغیر کچھ خریدے نکلنا ممکن ہی نہیں ہوتا تھا۔ کلفٹن کی سنہری شامیں اور منوڑا کی لہریں، جو دل کو ایسا سکون دیتی تھیں جیسے کسی ماں کی گود۔

ناظم آباد، نارتھ کراچی، نیو کراچی — وہ علاقے جہاں ہر محلے میں سب ایک دوسرے کے اپنے تھے، جہاں شادی بیاہ ہو یا کسی کا انتقال، پورا محلہ ساتھ کھڑا ہوتا تھا۔

اور برنس روڈ... جہاں کی نہاری، دہی بڑے، اور کباب پراتھے صرف ذائقہ نہیں، ایک محبت کا اظہار تھے۔ ہر ہوٹل، ہر خوانچہ، ایک داستان سناتا تھا۔

آج بھی جب کبھی رکشے کی آواز سنتا ہوں، یا پرانی فلموں کے گانے ڈبلیو-11 بس کی یاد دلاتے ہیں، دل وہیں کھینچ جاتا ہے۔ کراچی اب بھی ہے، مگر وہ پرانا کراچی — جو یاد بن کر دل میں بستا ہے — کہیں پیچھے رہ گیا ہے۔


  اسی کی دہائی کا کراچی ایک ایسا خواب تھا جو ہم نے آنکھوں میں نہیں، دل میں بسایا تھا۔ جب زندگی کا مطلب تھا — دوستوں کے ساتھ نائٹ کرکٹ، شام کی چائے پر سیاست، اور رکشے میں بیٹھ کر شہر کے مناظر کو پینا۔ لالو کھیت کی گلیوں سے لے کر کیماڑی کے ساحل تک، ہر جگہ ایک الگ رنگ، ایک الگ خوشبو اور ایک الگ محبت بکھری ہوئی تھی۔

لالو کھیت کے چبوترے، جہاں بزرگ چھاؤں میں بیٹھ کر گپیں مارتے اور بچے "پکڑن پکڑائی" کھیلتے، آج بھی دل کی دیواروں پر نقش ہیں۔ سپر مارکیٹ کی تنگ گلیاں، جہاں کپڑوں سے لے کر کھلونوں تک سب کچھ ملتا تھا، اور ہر دکاندار گاہک کو "بھائی جان" کہہ کر بلاتا تھا۔ صدر تو جیسے شہر کی نبض تھی، جہاں ایمپریس مارکیٹ کے اردگرد زندگی گھومتی تھی — کتابوں کے اسٹال، پہیے والے پان والے، اور پان کی سرخ پیکیں فٹ پاتھ پر گواہ ہوتی تھیں کہ یہاں وقت گزارا نہیں جاتا، جیا جاتا ہے۔

کراچی کی سب سے بڑی پہچان اُس کے کھانے تھے۔ اور جب بات کھانے کی ہو تو برنس روڈ کو کیسے بھلایا جا سکتا ہے؟ وہاں کی نہاری، دہی بڑے، چپلی کباب، حلیم، کباب پراتھے، اور گرم گرم پھینی — سب کچھ جیسے صرف ذائقہ نہیں، ایک تہذیب، ایک ورثہ تھا۔ رات گئے تک برنس روڈ پر لوگ کھانے کی تلاش میں نہیں، یادوں کے ذائقے چکھنے آتے تھے۔ ہر ہوٹل پر رش، ہر پلیٹ میں محبت، اور ہر گاہک کی زبان پر "بھائی، ایک اور آرڈر دینا!" — وہ سب لمحے آج بھی دل میں تڑپتے ہیں۔ 

نیپئر روڈ کی عمارتیں، خاموشی سے ماضی کی داستانیں سناتی تھیں۔ وہاں کے پرانے درخت، جھاڑیاں، اور دیواروں پر ماضی کا عکس، جیسے کراچی خود کو ہمیں دکھا رہا ہو۔

 

 کیماڑی سے لانچ پر بیٹھ کر منوڑا جانا، اور سمندر کی ٹھنڈی ہواؤں میں بیٹھ کر چنے چاٹ کھاتے ہوئے دوستوں کے خواب سننا — وہ لمحے آج بھی دل کے ساحل پر گونجتے ہیں۔

نیو کراچی میں بچپن دوڑتا تھا۔ ہر محلے میں کرکٹ کا میدان، ہر دروازے پر چبوترہ، اور ہر گلی میں کوئی "امّی" جو سب بچوں کی ماں جیسی ہوتی تھیں۔ کلفٹن کی شامیں، سمندر کے کنارے بیٹھ کر خاموشی سے لہروں کی باتیں سننے کی دعوت دیتی تھیں۔ اور طارق روڈ کی روشنیوں میں بھیگے ہوئے بازار، جہاں عید سے مہینوں پہلے بھی رش ہوتا، اور ہر گلی سے قہقہے اور چوری چھپے عشق کی ہنسی سنائی دیتی۔

کراچی کے ذائقے بھی کچھ اور تھے۔ گول گپے، دہی بڑے، دہی بھلے، حلیم، نہاری، بریانی… ہر چیز میں ایک الگ مزہ، ایک الگ کہانی چھپی ہوتی۔ نارتھ ناظم آباد کے ہوٹل ہوں یا برنس روڈ کی سجی سجائی دکانیں — ہر پلیٹ میں صرف کھانا نہیں، کراچی کا پیار ہوتا۔ اور پان؟ ارے بھائی! پان تو کراچی کی ثقافت تھا! دانت سرخ اور دل نرم ہو جاتا تھا، جب کسی نکڑ پر کھڑے ہو کر میٹھا پان منگوایا جاتا، اور ساتھ ہی دوستی کی ایک نئی داستان شروع ہو جاتی۔

ٹرانسپورٹ کی اپنی دنیا تھی۔ کالی پیلی ٹیکسیاں، جن کا میٹر کبھی نہیں چلتا تھا مگر باتوں میں وہ کراچی کی پوری سیاست سنا دیتے۔ رکشے جن کی آواز پورے گلی میں گونجتی، اور ان کا سفر، گرمی کے باوجود، دوستی کی گرمی سے بھرا ہوتا۔ اور ڈبلیو-گیارہ بس؟ ایک جیتی جاگتی آرٹ گیلری! ہر بس رنگوں، شاعری، اور قوالیوں سے سجی ہوتی — اور کراچی کی دھڑکن کو سڑکوں پر دوڑاتی تھی۔

رات ہوتے ہی جب سب گھر آ جاتے، تو ٹی وی آن ہوتا اور کراچی سینٹر کے ڈرامے لگتے۔ "تنہائیاں"، "انکہی "، "افشاں"، "ففٹی ففٹی" — یہ ڈرامے صرف تفریح نہ تھے، یہ ہمارے خاندان کا حصہ تھے۔ ان میں ہم خود کو پہچانتے، اور وہ کہانیاں ہمارے جذبات کی آواز بن جاتی تھیں۔ ، 

اور سب سے بڑھ کر، کراچی کے لوگ! سادہ، خلوص بھرے، مہربان۔ نہ نسل کی پروا، نہ فرقے کی، نہ زبان کی۔ سب مل جل کر جیتے تھے۔ محبت چھوٹی باتوں میں چھپی ہوتی — چائے کی پیالی میں، گلی کے دروازے پر کھڑے سلام میں، اور نانی کی بنائی ہوئی بریانی کی خوشبو میں۔

آج اگرچہ روشنی وہی ہے، مگر چمک کم ہے۔ شور وہی ہے، مگر اپنائیت کھو گئی ہے۔ لیکن دل کے ایک کونے میں وہ کراچی آج بھی سانس لیتا ہے۔ وہ شہر جو صرف ہمارا نہیں، ہم خود تھا۔

کراچی، تم صرف شہر نہ تھے... تم ہمارا بچپن، ہماری جوانی، ہماری یادوں کا خزانہ تھے۔ 



 

You May Read This Also

Post a Comment

0 Comments