مدھیہ پردیش ہائی کورٹ میں سیف علی خان کے خلاف اس تاریخی مقدمے کی شروعات اُس وقت ہوئی جب بھوپال کی نوابی ریاست کی شاہی وراثت پر کئی شراکت داروں نے اعتراض دائر کیا۔ نواب حمید اللہ خان کی جائیداد کی تقسیم پر تقریباً ۷ دہائیوں سے خاموش اختلافات چل رہے تھے، لیکن ۲۰۰۰ میں ایک نچلی عدالت نے سیف علی خان، اُن کی والدہ شرمیلا ٹیگور اور بہنوں سوہا و صبا علی خان کو مکمل وارث مانتے ہوئے اُن کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ یہ فیصلہ دراصل اللہ آباد ہائی کورٹ کے ایک پرانے فیصلے Talat Fatima Hasan کیس کی بنیاد پر دیا گیا تھا، جس میں وراثتی حق کا دائرہ محدود کر دیا گیا تھا۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے اُس پرانے فیصلے کو ۲۰۲۰ میں کالعدم قرار دے دیا، جس کے بعد جائیداد کے دوسرے دعویداروں نے نچلی عدالت کے ۲۰۰۰ کے فیصلے کے خلاف مدھیہ پردیش ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی۔ جسٹس سنجے دویدی کی سنگل بنچ نے مفصل سماعت کے بعد فیصلہ سناتے ہوئے پرانے فیصلے کو مکمل طور پر منسوخ کر دیا اور معاملہ دوبارہ نچلی عدالت کو ری ٹرائل کے لیے واپس بھیج دیا۔ عدالت نے خاص طور پر نشاندہی کی کہ سابقہ فیصلہ ایک ایسے قانونی اصول پر کھڑا تھا جو اب موجود ہی نہیں اور جسے سپریم کورٹ نے غلط قرار دے دیا ہے۔ مزید یہ کہ عدالت نے اعتراض کنندگان کو اضافی دستاویزات اور گواہوں کے ذریعے اپنے دلائل مضبوط کرنے کی اجازت دی ہے، اور اس مقدمے کو ایک سال کے اندر اندر مکمل کرنے کی سخت ہدایت بھی دی ہے تاکہ انصاف میں مزید تاخیر نہ ہو۔
اس پورے کیس کا ایک حساس پہلو Enemy Property Act سے جڑا ہوا ہے، کیونکہ نواب حمید اللہ خان کی بڑی صاحبزادی عبیدہ سلطان پاکستان چلی گئی تھیں، جس کے بعد حکومت ہند نے اُس وقت کی Enemy Property کے قانون کے تحت اس وراثت پر اپنا حق جتایا تھا۔ سیف علی خان نے حکومت کے اس دعوے کو عدالت میں چیلنج کیا تھا اور ۲۰۱۵ میں عدالت نے اس جائیداد کو حکومت کے قبضے سے روکنے کے لیے عارضی اسٹے آرڈر بھی جاری کیا تھا۔ لیکن حالیہ عدالتی کارروائی میں ہائی کورٹ نے وہ اسٹے بھی ختم کر دیا ہے، جس سے حکومت کو دوبارہ یہ جائیداد Enemy Property کے طور پر ضبط کرنے کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔ اس دوران مقدمے کی سماعت میں عدالت نے مسلم پرسنل لا کی دفعات، تقسیمِ ہند کے بعد مسلم وراثت کی قانونی حیثیت اور Enemy Property Act جیسے نازک نکات کو بھی مفصل طور پر سنا۔ مقدمے کے دوران اعتراض کنندگان کی طرف سے یہ بھی دلیل دی گئی کہ چونکہ جائیداد کی تقسیم مسلم پرسنل لا کے تحت ہونی چاہیے، لہٰذا تمام قانونی وارثین کو اُن کا حصہ دیا جانا لازم ہے، جس سے سیف علی خان اور اُن کی فیملی کا واحد وارث ہونے کا دعویٰ قانونی طور پر کمزور پڑ جاتا ہے۔ عدالت نے واضح کیا کہ حکومت یا کسی بھی فریق کو اگر اضافی ثبوت درکار ہوں تو وہ دوبارہ پیش کر سکتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر پرانے گواہوں کو دوبارہ طلب کیا جا سکتا ہے۔
اس مقدمے کی پیچیدگی اس بات سے بھی عیاں ہے کہ بھوپال اسٹیٹ کی یہ وراثت نہ صرف ۱۵ ہزار کروڑ روپے مالیت پر مبنی ہے بلکہ تاریخی ورثے، سیاسی تبدیلیوں اور تقسیم ہند کے بعد مسلم خاندانوں کی حیثیت جیسے موضوعات سے بھی جڑی ہے۔ اگر حکومت Enemy Property Act کو پوری طرح لاگو کرنے میں کامیاب ہو گئی تو یہ جائیداد ریاست کے ہاتھ میں جا سکتی ہے، ورنہ اگر مسلم پرسنل لا کی مکمل تشریح سے اعتراض کنندگان کا مؤقف مضبوط ہوتا ہے تو پٹوڈی خاندان کو اپنی عظیم الشان وراثت کو کئی حصوں میں تقسیم کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس پورے عمل نے سیف علی خان کے شاہی ورثے پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے اور آنے والا ری ٹرائل اس بات کا فیصلہ کرے گا کہ آخر اس تاریخی دولت اور نوابی شان و شوکت کا اصل قانونی وارث کون ہو گا۔ یوں اس مقدمے نے ایک بار پھر بھارتی عدلیہ میں وراثتی قوانین، مسلم پرسنل لا اور Enemy Property جیسے حساس قانونی موضوعات کو زندہ کر دیا ہے، جس کے فیصلے کے اثرات صرف ایک خاندان تک محدود نہیں بلکہ ملک بھر میں قانونی نظیر کی حیثیت بھی رکھتےہیں۔؟
0 Comments