ساغر صدیقی، جن کا اصل نام محمد اخترتھا، 1928ء میں انبالہ (برطانوی ہندوستان) میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ایک متوسط کشمیری خاندان سے تھا جو علم و ادب سے خاصا شغف رکھتا تھا۔ ساغر بچپن ہی سے حساس، خاموش مزاج اور تنہائی پسند تھے۔ انہوں نے باضابطہ تعلیم حاصل نہیں کی، اور ابتدائی تعلیم حبیب حسن صاحب سے حاصل کی جن سے ان کے خاندان کے دیرینہ مراسم تھے۔ مطالعے اور مشاہدے نے ساغر صدیقی کو کم عمری میں ہی ایک باشعور شاعر بنا دیا۔ اردو اور فارسی کے کلاسیکی شعراء سے متاثر ہو کر انہوں نے نو عمری میں غزل کہنا شروع کی، اور جلد ہی ان کا کلام ادبی حلقوں میں سراہا جانے لگا۔ انہوں نے پہلے اپنا قلمی نام ناصر حجازی رکھا جوبعد میں بدل کر ساغر صدیقی کر دیا۔ کم عمری میں ہی ساغر صدیقی کام کی تلاش میں امرتسر چلے گئے اور وہاں کنگھیاں بنانے کا کام بھی کیا مگرساتھ ساتھ اپنے ادبی شوق کو بھی جاری رکھا اور پندرہ سال کی عمر میں امرتسر جالندھر لدھیانہ اور گرداس پور میں ہونے والے مشاعروں میں شرکت کرنا شروع کی۔
1947ء میں برصغیر کی تقسیم کے بعد ساغر صدیقی ہجرت کر کے لاہور آ گئے۔ یہ ہجرت ان کے لیے جسمانی ہی نہیں بلکہ روحانی، ذہنی اور جذباتی صدمہ بھی تھی۔ انہوں نے اپنی آنکھوں سے فسادات میں انسانوں کو کٹتے دیکھا، عزیزوں کو کھوتے دیکھا۔ لاہور میں انہوں نے نیا ادبی سفر شروع کیا۔ جلد ہی ان کی شاعری نے اردو ادب میں دھوم مچا دی۔ ان کی غزلوں میں درد، جدائی، تصوف اور رومان کا حسین امتزاج تھا۔ ساغر کے اشعار میں ایک عجیب سی کشش تھی جو سننے والے کو اپنی گرفت میں لے لیتی تھی۔ مشاعروں میں ان کی شرکت ایک خاص بات سمجھی جاتی تھی، ان کا کلام رسائل اور جرائد کی زینت بننے لگا۔
تاہم ساغر صدیقی کی یہ شہرت جلد ہی استحصال میں بدل گئی۔ پبلشرز ان سے غزلیں لکھواتے اور معمولی دام دے کر چھاپ لیتے، بعض اوقات بغیر اجازت۔ ان کے سادہ دل، غیرمادی مزاج اور دنیا داری سے ناواقف طبیعت نے انہیں زمانے کا آسان شکار بنا دیا۔ ساتھ ہی ان کی زندگی میں ایک محبت بھی آئی، جس کے بارے میں زیادہ تفصیل معلوم نہیں، مگر وہ ناکام رہی۔ یہ ناکامی بھی ان کے دل میں ایک گہرا زخم چھوڑ گئی، جو ان کے اشعار میں مسلسل خون بن کر بہتا رہا۔ وقت کے ساتھ وہ ذہنی طور پر ٹوٹنے لگے۔ ان پر اداسی، افسردگی اور خودکلامی کی کیفیت طاری ہو گئی۔
1950 کی دہائی کے وسط تک ساغر نشے کی لت میں مبتلا ہو چکے تھے۔ وہ افیون اور دیگر نشہ آور اشیاء کے سہارے دن گزارنے لگے۔ ان کے دوست، مداح، اور دنیا سب نے انہیں چھوڑ دیا۔ وہ لاہور کی سڑکوں پر، درباروں کے باہر، چائے خانوں میں پھٹے ہوئے کپڑوں میں نظر آنے لگے۔ اکثر وہ زمین پر انگلی سے اشعار لکھتے، یا سگریٹ کے پیکٹوں پر اپنی غزلیں محفوظ کرتے۔ ان کے پاس نہ کوئی ٹھکانہ تھا، نہ کاغذ، نہ قلم، نہ عزت۔ لیکن لفظ ان کا ساتھ نہ چھوڑے۔ وہ آخری سانس تک شاعر رہے۔
بھارت کے دورے کے دوران پاکستان کے سابق صدر ایوب خان کے دل کو چھونے والا ایک گانا سن کر بہت متاثر ہوئے اور انہوں نے گلوکار اور نغمہ نگار سے ملنے کی شدید خواہش کا اظہار کیا۔ حیرت کی بات ہے کہ جب اسے معلوم ہوا کہ شاعر کا تعلق پاکستان سے ہے تو وہ حیران رہ گئے۔ پاکستان میں واپس صدر ایوب نے شاعر ساغر صدیقی کو تلاش کرنے کے احکامات جاری کیے جو داتا دربار کے باہر عاجزی سے رہتے تھے۔ سرکاری اہلکار ساغر صدیقی کو لینے پہنچ گئے تو ساغر نے سرکاری اہلکاروں کو جواب دیا کہ ساغر کی کسی کے ساتھ نہیں بنتی اسی لئے ساغر کسی سے نہیں ملتا ، اور پھر ساغر صدیقی نے قریب ہی پڑے سگریٹ کے خالی ڈبے سے لیے گئے ایلومینیم کے ورق پر ایک شاہکار شعر لکھا، اسے صدر تک پہنچانے کو کہا۔ صدیقی نے یہ شعر صدر کے نام اپنے پیغام میں لکھا تھا۔
جس دور میں لٹ جائے غریبوں کی کمائی
اس دور کے سلطان سے کوئی بھول ہوئی ہے
19 جولائی 1957 کو ساغر صدیقی کی لاش لاہور کی ایک گلی میں ملی۔ کئی گھنٹے تک کوئی پہچاننے والا نہ آیا۔ بالآخر ایک فقیر نے ان کی شناخت کی۔ وہ فقیر جو کبھی ان کے اشعار سن کر رویا کرتا تھا، آج ان کی میت پر خاموش کھڑا تھا۔ ساغر کو میانی صاحب کے قبرستان میں دفن کیا گیا۔ ان کی قبر پر برسوں تک کوئی کتبہ نہ تھا۔ ایک عظیم شاعر، جس نے لفظوں کو حیات دی، خود بے نام، بے نشان مٹی میں دفن ہو گیا۔
مگر ساغر مر کر بھی زندہ رہا۔ ان کے اشعار آج بھی دکھی دلوں، ٹوٹے خوابوں، اور خاموش عاشقوں کی زبان پر ہیں۔ ان کی شاعری میں وہ خلوص، سچائی، اور درد ہے جو وقت سے بالاتر ہو چکا ہے۔ ساغر صدیقی صرف ایک شاعر نہ تھے، وہ ایک علامت تھے—ایسے حساس فنکار کی، جسے دنیا نے سمجھنے کے بجائے فراموش کر دیا۔ لیکن وہ لفظوں میں امر ہو گئے۔ آج بھی جب کوئی نوجوان دل شکستہ ہو کر غزل لکھتا ہے، تو کہیں نہ کہیں ساغر اس کے اندر بول اٹھتا ہے۔
سال 2023 میں حکومت پاکستان نے انہیں ستارہ امتیاز سے نوازا۔
0 Comments