سال 1980 اورمحرم کے جلوس
میں نے محرم کا جلوس پہلی بار80 کی دہائی میں اپنی نانی کی پرانی حویلی کی چھت پر کھڑے ہو کر دیکھا تھا۔ اس وقت میری عمر چھ سال تھی۔ اور ہم گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے نانی کے گھر آئے ہوئے تھے اور انکا گھر بازار کے باکل سامنے تھے۔ جب جلوس پاس آیا تو سب بچے جوان بوڑھے جلوس میں شامل ہو گئے۔ لوگ ماتم کر رہے تھے زنجیر زنی کر رہے تھے اور رو رہے تھے۔ میں نے اپنے ماموں سے پوچھا یہ ایسے کیوں کر رہے ہیں تو انہوں نے مجھے شہادت امام حسینؑ اور واقعہ کربلا کے بارے میں بتایا۔اور تب مجھے پہلی بار شہادت امام حسینؑ اور واقعہ کربلا کی اہمیت کا پتہ چلا اور اندازہ ہوا کہ جلوس صرف رسم نہیں تھے، بلکہ جیتی جاگتی تاریخ کی کتابیں تھے۔ ہم بچے تھے، معصوم اور تجسس سے بھرے، اور یہ جلوس ہمارے لیے واقعہ کربلا کو سمجھنے کا پہلا ذریعہ بنتے تھے۔
یہ 80 کی دہائی تھی۔
ملک میں ابھی نفرتوں کا کاروبار نہیں چلا تھا۔
ہم لوگ محرم کو بس امام حسینؑ کا غم سمجھتے تھے — کسی کا غم چرانا، کسی پر شک کرنا، کسی سے نفرت کرنا ہمیں آتا ہی نہ تھا۔
مجھے یاد ہے، دسویں محرم کی وہ صبح۔
ہم سب بہن بھائی، کزن اور محلے کے چند بڑے لڑکے، سر پر گیلا تولیہ رکھے جلوس کے راستے میں بیٹھے تھے۔
گھروں کے دروازے کھلے تھے۔
عورتیں اپنی چھتوں پر چادریں اوڑھے، چھوٹے بچوں کو گود میں اٹھائے، تازیانے دیکھتیں تو ان کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے۔
کوئی بھی خوفزدہ نہ تھا۔
کوئی یہ نہ پوچھتا کہ تم کون ہو، کہاں سے آئے ہو؟
میں نے اپنی امی کو دیکھا — وہ سبیل پر برف ڈال رہی تھیں۔
پانی کے گلاس خود بھر بھر کر سب کو دیتی تھیں۔
ساتھ والے گھر کی خالہ نے دودھ کی سبیل لگائی تھی۔
خالہ کا مسلک ہم سے مختلف تھا، لیکن محبت کی سبیل ایک تھی۔
کوئی شربت کا گلاس پیتا، کوئی برف چباتا،
اور جب جلوس گزر جاتا، تو گلیاں صاف کی جاتیں — کوئی شکایت نہ کرتا، کوئی الزام نہ لگاتا۔
کیا منظر ہوتا تھا جب جلوس سڑکوں پر آتے۔ تعزیے، علم، ذوالجناح، اور سب سے بڑھ کر وہ نوحہ خوانی جس کی دھنیں ہمارے ننھے کانوں میں اتر کر دل کو چیر دیتی تھیں۔ بڑے ہمیں بتاتے تھے کہ یہ سب کیوں ہو رہا ہے۔ وہ بتاتے تھے کہ امام حسینؑ اور ان کے ساتھیوں نے کس طرح دین کی خاطر جانیں قربان کیں۔ ہمارے ننھے ذہنوں میں ان واقعات کی تصویریں بنتی تھیں – پیاس، قربانی، اور حق و باطل کی جنگ۔ یہ محض ایک سانحہ نہیں تھا؛ یہ ایک سبق تھا جو ہم عملی طور پر سیکھ رہے تھے۔
وقت گزرتا گیا۔
شہر وہی رہا، حویلی وہی رہی،
لیکن دلوں کی چھتوں پر اونچی دیواریں اُگ آئیں۔
اب کوئی بچوں کو تازیانے دیکھنے نہیں بھیجتا۔
ماں باپ ڈرتے ہیں کہ جلوس کے ساتھ نفرت کا سیلاب بھی نہ آ جائے۔
سبیلوں پر لوگ پانی پینے سے پہلے شکوک پیتے ہیں۔
ماتم دلوں میں کم، زبانوں پر زیادہ رہ گیا ہے۔
میں کبھی کبھی اپنی نانی کی پرانی حویلی کی چھت پر چڑھ کر اُس دن کو یاد کرتا ہوں۔
پھر سوچتا ہوں کہ کاش ہم اپنی اگلی نسل کو بھی وہی سبیل دکھا پائیں —
جہاں عقیدت برف کی طرح ٹھنڈی تھی،
اور محبت تازیانوں کی طرح کرب سے گزرتی ہوئی، ایک دوسرے کو باندھتی تھی۔
محرم کا غم شاید آج بھی وہی ہے،
پر وہ امن؟
وہ شاید ہم نے کہیں راہِ کربلا میں کھو دیا ہے۔
یا اللہ…! ہمیں وہی سبیل لوٹا دے
0 Comments