Ticker

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

شہرت کا مسافر: ڈاکٹر عامر لیاقت کی زندگی کی ایک مکمل کہانی

dr-aamir-liaqat-hussain




 ڈاکٹر عامر لیاقت اور روشنیوں کا تعاقب

کراچی کی ایک پرہجوم سڑک پر ہنستا مسکراتا ایک لڑکا اپنی کتابوں کا بیگ تھامے مستقبل کے خواب بُن رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں علم کی چمک تھی اور زبان پر الفاظ کا جادو۔ وہ عام بچوں جیسا نہ تھا۔ وہ ڈاکٹر عامر لیاقت حسین تھا—ایک ایسا نام جو آنے والے برسوں میں ہر گھر کی ٹی وی اسکرین پر چھا جانے والا تھا۔

۔ 5  جولائی 1971 کو شیخ لیاقت حسین اور محمودہ سلطان کے ہاں ڈاکٹر عامر لیاقت حسین جیسا ہونہار بیٹا پیدا ہوا جس نے میڈیا کے رجحان کو یکسر بدل کر رکھ دیا۔ ان کے والد، ایک سیاسی رہنما، اور والدہ، ایک ادیبہ تھیں ۔عامر نے علم اور سیاست دونوں کو وراثت میں پایا۔ مگر اس نے اس وراثت کو محض نام نہیں بنایا، آواز بنایا، خطابت بنایا، اور ایک طوفان بنایا۔


 تعلیم اور کیریر

لیاقت میڈیکل کالج جامشورو سے طب کر ڈگری حاصل کرنے والے ڈاکٹر عامر لیاقت نے مذہبی پروگرام کے رجحان کو بدل کر رکھ دیا ۔ اور پھر جب جیو ٹی وی کا آغاز ہوا تو ڈاکٹر عامر لیاقت نے عالم آن لائن کے نام سے مزہبی پروگرام کا آغاز کیا۔ 

“یہ ہے پروگرام ‘عالم آن لائن’، اور میں ہوں آپ کا میزبان، ڈاکٹر عامر لیاقت حسین۔”

یہ الفاظ اُس شام لاکھوں گھروں میں گونجے۔ عامر کا انداز، گفتگو، اور مسکراہٹ جیسے لوگوں کے دل میں اترتی چلی گئی۔ وہ مذہب، فلسفہ، سیاست، تفریح، اور جذبات کو ایک ایسی ڈوری میں باندھنے لگے جو پہلے کسی نے نہ دیکھی تھی۔

ٹی وی اسکرین پر وہ صرف میزبان نہ تھا، وہ رہنما تھا، مرشد تھا، اور کبھی کبھار مذاق کا سامان بھی۔ کبھی وہ تحائف بانٹتا، کبھی نعتیں سناتا، تو کبھی آنکھوں میں آنسو لیے قوم سے مخاطب ہوتا۔ لوگ اس سے محبت کرتے تھے، اور کچھ لوگ تنقید بھی۔

ڈاکٹر عامر لیاقت حسین نے پاکستان میں رمضان نشریات کو ایک نیا رنگ دیا۔ ان کی میزبانی میں رمضان ٹرانسمیشن صرف مذہبی نہیں رہی، بلکہ ایک ہمہ جہت تفریحی، تعلیمی اور سماجی پروگرام بن گئی۔ انہوں نے نعت خوانی، دینی سوال و جواب، تحفے، دعائیں اور کھیلوں کو ایک ساتھ جوڑ کر ایک ایسا فارمیٹ متعارف کروایا جس نے لاکھوں ناظرین کو سحر و افطار کے لمحات میں ٹی وی اسکرین سے جوڑے رکھا۔ ان کی برجستہ گفتگو، خوش اخلاقی اور عوامی انداز نے رمضان نشریات کو نیا معیار بخشا۔ ان کا یہ انداز کئی چینلز نے اپنایا، مگر ان جیسی مقبولیت کسی کو حاصل نہ ہو سکی۔


 سیاست کا سفر

عامر نے صرف ٹی وی پر جلوہ نہ دکھایا، وہ قومی اسمبلی کی نشست تک جا پہنچا۔

“میں صرف ایک اینکر نہیں، اس قوم کا خادم بننا چاہتا ہوں!” اس نے نعرہ لگایا۔

ایم کیو ایم سے آغاز کیا، وزیرِ مملکت برائے مذہبی امور بنے۔ مگر سیاست وہ میدان ہے جہاں ہر مسکراہٹ کے پیچھے خنجر چھپا ہوتا ہے۔ ایک دن وہ وزارت چھن جانے پر خاموش ہو گیا، دوسرے دن کسی اور پارٹی میں نیا وعدہ لے کر نمودار ہوا۔

تحریکِ انصاف میں آئے تو ایک بار پھر ٹی وی اور سوشل میڈیا کی سرخیوں میں چھا گئے، مگر پارٹی کے اندر کی سیاست، الزامات، اور اختلافات کے طوفان نے ان کے خوابوں کی عمارت لرزا دی۔


 محبت، شادی اور تنہائی

محبت عامر لیاقت کے لیے کبھی آسان نہ رہی۔

بشریٰ… ایک باحجاب، سنجیدہ عورت۔ اس کی پہلی بیوی، جس کے ساتھ عامر نے زندگی کے کئی برس گزارے۔ ان کے دو بچے بھی ہوئے۔ مگر شہرت کی گلیوں میں اکثر گھر چھوٹ جاتے ہیں۔

پھر ایک اور چہرہ آیا… طوبیٰ۔ خوبصورت، جوان، اور میڈیا سے جڑی۔ ان کی محبت کی کہانی نے سرخیوں میں جگہ پائی، مگر زیادہ دیر نہ چلی۔ طلاق ہوئی، اور طوبیٰ خاموشی سے رخصت ہو گئی۔

پھر آئی دانیہ… ایک کم عمر، سوشل میڈیا اسٹار، شوہر سے زیادہ شو کا موضوع۔ شادی، الزامات، عدالتیں، ویڈیوز، اور پھر وہ خلع کی درخواست جو عامر کے وقار کو مجروح کر گئی۔

“میں عامر لیاقت ہوں… کوئی مجرم نہیں!” وہ چیخا۔ لیکن سوشل میڈیا کے ہجوم میں کسی نے اس کی پکار نہ سنی۔


 تنہائی کا عذاب

وہ جو لاکھوں کا چہیتا تھا، ایک دن اکیلا ہو گیا۔ طوفان کے بعد کی خاموشی بہت گہری تھی۔ اس کے ہنسی مزاح میں اب دکھ چھپا ہوتا تھا۔ اس کی آنکھوں میں نمی تھی، مگر الفاظ اب بھی رواں تھے۔

ایک روز اس نے کہا:

“کاش لوگ میری ہنسی کے پیچھے کا دکھ بھی سمجھتے…”

پھر 9 جون 2022 آیا۔ ایک خاموش صبح… عامر اپنے کمرے میں مردہ پایا گیا۔

نہ کوئی آخری پیغام، نہ کوئی وداعی کلام۔ بس اچانک پردہ گر گیا۔


 بعد از پردہ

لوگ حیران رہ گئے۔

“یہ تو وہی عامر تھا جو کل تک قہقہے لگا رہا تھا، اب خاموش کیوں ہے؟”

سوشل میڈیا پر ویڈیوز وائرل ہوئیں، لوگ رونے لگے، اور کچھ طنز بھی کرتے رہے۔ پوسٹ مارٹم کی خبریں، عدالتیں، مخالفتیں… مگر عامر اب خاموش تھا۔ ہمیشہ کے لیے۔

ڈاکٹر عامر لیاقت حسین… ایک نام، ایک داستان، ایک سبق۔ شہرت، علم، سیاست، محبت، اور تنہائی کے اس سفر میں اس نے سب کچھ پایا، سب کچھ کھویا۔

شاید وہ صرف ایک انسان تھا… جو چاہتا تھا کہ لوگ اسے دل سے سنیں، مگر دنیا اسے صرف اسکرین پر دیکھتی رہی۔


شہرت وہ شعلہ ہے جو روشنی تو دیتا ہے، مگر خود کو بھی جلا دیتا ہے…”



You May Read This Also

Post a Comment

0 Comments