یقیناً! کیپٹن کرنل شیر خان (نشانِ حیدر) پاکستان کے ایک عظیم سپاہی تھے جنہوں نے کارگل جنگ 1999 میں اپنی جان کا نذرانہ دے کر وطن کے لیے قربانی کی اعلیٰ مثال قائم کی۔ ۔
پختونخوا کے پہاڑوں سے
وادیٔ صوابی کی صبح عام طور پر پر سکون ہوتی ہے، مگر اس دن کچھ خاص تھا۔ گاؤں نوے کلے کی گلیوں میں بچوں کی ہنسی اور مرغوں کی بانگ کے ساتھ ساتھ ایک نو مولود کی آواز گونجی۔ یہ 1 جنوری 1970 تھا، جب حاجی حاضر خان کے گھر ایک بیٹے کی ولادت ہوئی۔ خاندان نے اس کا نام رکھا کرنل شیر خان۔
بچپن ہی سے کرنل شیر خان میں ایک خاص بات تھی۔ اس کی آنکھوں میں چمک، چہرے پر سنجیدگی اور دل میں کچھ کر گزرنے کا جذبہ۔ وہ پہاڑوں پر دوڑتا، ندیوں میں تیرتا، اور اپنے دوستوں کو "کمانڈر" بن کر لیڈ کرتا۔ اسکول میں جب استاد نے پوچھا، "تم بڑے ہو کر کیا بنو گے؟" تو شیر خان نے بلند آواز میں کہا، "سپاہی! اپنے وطن کا محافظ!"
وردی کا خواب
صوابی پوسٹ گریجویٹ کالج سے انٹر میڈیٹ میں پڑھتے ہوئے بھی شیر خان کا دل ہمیشہ فوج کی طرف مائل رہا۔ انٹر میڈیٹ مکمل کرتے ہی اس نے پاک فوج میں شمولیت حاصل کی۔ دوست اسے مزاحاً "کرنل شیر خان" کہا کرتے، کیونکہ اس کا نام تو "کرنل" تھا ہی، لیکن وہ خود کہتا، "ایک دن ایسا بنوں گا کہ
دشمن میرا نام سن کر لرزے گا۔"
سال 1989 میں کرنل شیر خان نے پاکستان ائیر فورس جوائن کی اور بطور ائیر میں کورنگی کراچی میں اقبال و گل میں ۔ تعینات رہے ۔ وہاں انکے روم میٹ سکوارڈن لیڈر محمد مشتاق تھے ۔ے
1992 میں جب وہ پاکستان۔
آرمی میں کمیشن حاصل کر کے 27 سندھ رجمنٹ میں شامل ہوا، تو اس کی بہادری، دیانت اور جواں مردی نے اسے سب سے ممتاز کر دیا۔ وہ ایک فطری لیڈر تھا، جو اپنے جوانوں کے ساتھ بیٹھتا، کھاتا، ہنستا، اور لڑتا تھا۔
کارگل کی گرجتی راتیں
1999 کا موسمِ گرما ایک نیا طوفان لے کر آیا۔ بھارتی افواج اور پاکستان کے درمیان کارگل کی برفیلی چوٹیاں میدانِ جنگ بن گئیں۔ کیپٹن کرنل شیر خان کو گلتیری سیکٹر میں محاذِ جنگ کی قیادت سونپی گئی۔ وہاں آکسیجن کی کمی، دشمن کی گولہ باری، اور منفی درجہ حرارت میں لڑنا عام انسان کا کام نہ تھا۔ مگر شیر خان اور اس کی پلاٹون نے چٹانوں پر بسیرا کیا، اور دشمن کے ہر حملے کو پِچھاڑا۔
وہ نہ صرف دفاع کرتا بلکہ دشمن کے مورچوں پر خود حملہ آور ہوتا۔ ان کے بنکروں پر جھپٹتا، ان کے سپاہیوں کو گھیرتا، اور واپس اپنی پوزیشن پر آ کر ہنستا، جیسے کہ یہ سب کوئی کھیل ہو۔
آخری معرکہ
خود مورچوں کے آگے جا کر لڑا، گولیاں برسائیں، دشمن کے تین بنکر تباہ کیے۔ مگر اسی دوران دشمن کی گولیوں کا نشانہ بن کر وہ شدید زخمی ہوا۔ مگر زمین پر گرتے ہوئے بھی اس نے اپنا ہتھیار نہ چھوڑا، آخری گولی تک لڑتا رہا… اور پھر سجدہ کرتے ہوئے زمین پر گر پڑا۔
دشمن کا سلام
جب بھارتی فوج نے شیر خان کی لاش دیکھی، تو ان کے کمانڈر بریگیڈیئر ایم پی ایس باجوہ نے پاک فوج کے افسران کو خط لکھا:
"آپ کے افسر کی بہادری اور جرأت قابلِ تحسین ہے۔ اس نے ہمیں حیران کر دیا۔ اسے اعلی اعزاز سے نوازا جائے ۔"
یہی وہ بہادری تھی جس پر حکومتِ پاکستان نے انہیں نشانِ حیدر سے نوازا — پاکستان کا سب سے اعلیٰ عسکری اعزاز، جو صرف شہیدوں کو ملتا ہے۔
ایک قوم کا ہیرو
آج بھی جب کوئی نوجوان وطن سے محبت کا سبق سیکھنا چاہے، تو اسے "کیپٹن کرنل شیر خان" کا نام سکھایا جاتا ہے۔ ایک ایسا سپاہی، جو دشمن کے دلوں میں خوف، اور اپنی قوم کے دلوں میں فخر بن کر زندہ ہے۔
0 Comments