ستر کی دہائی کا بھارتی سنیما کئی لحاظ سے تبدیلی کے دور سے گزر رہا تھا۔ ایک جانب بڑے بجٹ کی تجارتی فلمیں راجیش کھنہ، امیتابھ بچن اور دھرمندر جیسے ستاروں کے ساتھ سنیما گھروں میں چھائی ہوئی تھیں، تو دوسری جانب ایک نیا رجحان بھی اُبھر رہا تھا — سادہ، حقیقت پسند اور عام لوگوں کی کہانیاں بیان کرنے والا "مڈل سنیما" یا "متوازی سنیما"۔ یہی وہ میدان تھا جہاں دو غیر روایتی مگر نہایت پُراثر فنکاروں نے قدم رکھا: امول پالیکر اور ودیا سنہا۔ ان دونوں اداکاروں کی موجودگی نے اس دور کے سنیما کو ایک خاص رنگ دیا — سادگی، معصومیت اور زندگی کے حقیقی لمس کا رنگ۔
امول پالیکر ان چند اداکاروں میں سے تھے جنہوں نے "ہیرو" کے روایتی تصور کو توڑ کر سنیما میں ایک عام، شرمیلے، مگر دل سے خالص انسان کا چہرہ متعارف کرایا۔ ان کی شخصیت میں نہ تو چمک دمک تھی، نہ ہی دبنگ انداز، مگر ان کی سادگی میں جو کشش تھی، وہ ناظرین کے دلوں پر نقش ہو گئی۔ فلم "راجنیگندھا" میں انہوں نے ایک سادہ، سنجیدہ اور محبت کرنے والے انسان کا کردار اس خوبی سے نبھایا کہ ناظرین کو لگا جیسے وہ کوئی جانا پہچانا شخص ہے۔ "چوٹی سی بات" میں وہ ایک ایسا نوجوان تھے جو محبت تو کرتا ہے مگر اظہار نہیں کر پاتا، اور اسی جھجک میں ایک الگ طرح کی معصومیت دکھاتا ہے۔ "باتوں باتوں میں" میں بھی وہ اسی طرز کے کردار میں نظر آتے ہیں، لیکن ہر بار ایک نئی تازگی کے ساتھ۔
ودیا سنہا نے اپنی نرمی، سادگی اور قدرتی حسن سے اس دور کے ناظرین کے دل جیت لیے۔ ان کا انداز نسوانی نزاکت اور خود اعتمادی کا حسین امتزاج تھا۔ "راجنیگندھا" میں وہ ایک ایسی لڑکی کے روپ میں نظر آئیں جو ماضی اور حال کے درمیان الجھی ہوئی ہے۔ ان کی آنکھوں کی گہرائی، آواز کی مٹھاس اور اندازِ بیان نے کردار کو گویا زندہ کر دیا۔ "چوٹی سی بات" میں وہ ایک آزاد خیال، ہنس مکھ اور سادہ مزاج لڑکی تھیں، جو امول پالیکر کے کردار کی دنیا بدل دیتی ہے۔
امول پالیکر اور ودیا سنہا کی جوڑی 70 کی دہائی کی ان چند جوڑیوں میں شامل ہے جنہوں نے سنیما میں محبت کو چیخ و پکار یا ڈرامائی جذبات سے نہیں، بلکہ خاموش نظروں، چھپی ہوئی مسکراہٹوں اور بے ساختہ لمحوں سے بیان کیا۔ "چوٹی سی بات" میں جب امول، ودیا کو دور سے دیکھ کر نظریں چراتے ہیں، اور ودیا سنہا پلٹ کر ہنس دیتی ہیں، تو اس خاموش منظر میں محبت کی وہ شدت محسوس ہوتی ہے جو آج کے شور شرابے والے سنیما میں نایاب ہے۔
ان فلموں کی کامیابی میں ہدایتکار بسو چٹرجی اور ہرین بھٹاچاریہ کا بھی بہت اہم کردار رہا۔ انہوں نے ایسے سنیما کو فروغ دیا جو بنا کسی لاؤڈ میوزک، بنا کسی بڑے سیٹ کے، محض سچائی اور جذبات سے لبریز کہانیوں پر کھڑا تھا۔ ان کی فلمیں ایک ایسے ہندوستان کی عکاسی کرتی تھیں جو روز صبح بس پکڑتا، دفتر جاتا، چائے پیتا، اور شام کو دھیرے سے خواب بُننے لگتا۔
آج جب ہم بڑی اسکرین پر چمکدار، مصنوعی اور تیز رفتار سنیما دیکھتے ہیں، تو دل کہیں امول پالیکر اور ودیا سنہا کے زمانے کی فلموں کی سادگی کو یاد کرتا ہے۔ وہ وقت جب اداکاری دل سے کی جاتی تھی، جب کردار کتابوں سے نہیں، گلی محلوں سے لیے جاتے تھے۔ ان کی فلمیں وقت کا ایک ایسا ورق ہیں، جو نہ صرف سنبھال کر رکھنے کے لائق ہیں، بلکہ بار بار پڑھنے، دیکھنے اور محسوس کرنے کے قابل بھی ہیں۔
کبھی رات کے سناٹے میں "باتوں باتوں میں" لگا دیجیے، یا "چوٹی سی بات" کے وہ منظر دیکھیے جب امول اپنے جذبات کو الفاظ میں ڈھالنے کی کوشش کرتا ہے، تو ایک خاص خوشبو محسوس ہوتی ہے — وہ خوشبو جو گزرے وقتوں کی ہوتی ہے، جو دل کو نرم کر دیتی ہے، جو یاد دلاتی ہے کہ محبت آج بھی خاموشی سے کی جا سکتی ہے، صرف دیکھنے، محسوس کرنے اور سمجھنے کی دیر ہے۔
0 Comments