سلطان راہی، جنہیں پنجابی فلموں کا بے تاج بادشاہ کہا جاتا ہے، 24 جون 1938 کو بھارتی شہر سہارنپور (اتر پردیش) میں پیدا ہوئے۔ قیامِ پاکستان کے بعد ان کا خاندان لاہور آ کر آباد ہو گیا۔ وہ بچپن ہی سے فنِ اداکاری کے دلدادہ تھے، تاہم ان کا تعلق ایک عام اور مذہبی گھرانے سے تھا۔ اگرچہ تعلیم کے شعبے میں زیادہ کامیاب نہ ہو سکے، مگر ان کے اندر چھپا ہوا فنکار آخر کار فلمی دنیا میں اپنی شناخت بنانے میں کامیاب ہو گیا۔ 1959 میں انہوں نے فلم "باغی" سے کیریئر کا آغاز کیا، مگر ان کی محنت اور جدوجہد نے بالآخر انہیں 1972 کی فلم "بشیرا" اور بعد ازاں 1979 کی شہرہ آفاق فلم "مولا جٹ" سے سپر اسٹار بنا دیا۔ "مولا جٹ" میں ان کا کردار آج بھی پاکستانی سینما کی تاریخ کا سب سے یادگار کردار مانا جاتا ہے، جس کے مکالمے عوام کے دلوں میں آج بھی گونجتے ہیں۔
سلطان راہی کی شہرہ آفاق فلم "مولاجٹ" 1979 میں ریلیز ہوئی، جسے پنجابی سینما کی تاریخ کا سنگِ میل سمجھا جاتا ہے۔ اس فلم نے نہ صرف سلطان راہی کو ایک عظیم لیجنڈ کے طور پر منوایا بلکہ پاکستانی فلم انڈسٹری کو بھی ایک نیا رخ دیا۔ "مولاجٹ" میں انہوں نے ایک بے خوف، غصے سے بھرے، لیکن انصاف پسند دیہاتی نوجوان کا کردار نبھایا جو ظالموں کے خلاف ڈٹ جاتا ہے۔ ان کے سامنے ولن کے طور پر مصطفی قریشی کا کردار "نوری نت" تھا، جس کے ساتھ ان کی دشمنی اور مکالموں کا تبادلہ آج بھی زبان زدِ عام ہے۔ خاص طور پر سلطان راہی کا تاریخی مکالمہ "نواں آیا ایں سوہنیا؟" پاکستانی فلمی ثقافت کا حصہ بن چکا ہے۔ "مولاجٹ" نے نہ صرف باکس آفس کے تمام ریکارڈ توڑے بلکہ ایک نیا فلمی کلچر متعارف کرایا جسے بعد میں "گنڈاسہ کلچر" کہا گیا۔ اس فلم کی کامیابی نے سلطان راہی کو عوامی دلوں کا حقیقی ہیرو بنا دیا اور آج بھی یہ فلم پاکستانی سینما کی سب سے یادگار اور طاقتور فلموں میں شمار ہوتی ہے۔
سلطان راہی نے اپنے فلمی کیریئر میں سات سو سے زائد فلموں میں کام کیا، جن میں سے اکثریت پنجابی زبان میں تھی۔ وہ نہ صرف پاکستان بلکہ جنوبی ایشیا کے ان چند اداکاروں میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے سب سے زیادہ فلموں میں مرکزی کردار نبھایا۔ ان کی اداکاری کا خاص پہلو ان کا جاندار لہجہ، نڈر شخصیت اور مظلوم کے لیے آواز اٹھانا تھا۔ انہوں نے صرف ایک اداکار کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک عوامی ہیرو کے طور پر شہرت حاصل کی۔ ان کی ذاتی زندگی سادہ مگر باوقار تھی۔ ان کے بیٹے حیدر سلطان بھی اداکاری کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ سلطان راہی دین سے گہری وابستگی رکھتے تھے اور ان کی گفتگو میں اکثر مذہبی رجحان جھلکتا تھا۔
سلطان راہی نے اپنے طویل اور شان دار فلمی کیریئر میں درجنوں مشہور فلموں میں کام کیا، جنہوں نے نہ صرف باکس آفس پر دھوم مچائی بلکہ انہیں عوامی ہیرو کے طور پر بھی مقبول بنایا۔ ان کی مشہور ترین فلموں میں "بشیرا", "چن وریام", "مولا جٹ", "شیر خان", "سالہ سجن", "وحشی جٹ", "بابل دا ویہہ", "اک پردیسی اک مٹیار", "غازی علم دین شہید"، "سردار", "راکا", "نوری نت", "دوستی", "یعقوب شیطان", اور "قیدی" شامل ہیں۔ ان فلموں میں ان کے کردار زیادہ تر نڈر، انصاف پسند، اور غریب عوام کے حمایتی ہوتے تھے جنہوں نے ظلم کے خلاف علم بلند کیا۔
سلطان راہی نے اپنے کیریئر کے دوران کئی مشہور اداکاراؤں کے ساتھ کام کیا جن میں آسیہ, ممتاز, انجمن, مسرت شاہین, بابرا شریف, ریما, صائمہ, نغمہ, اور زمرد کے نام نمایاں ہیں۔ آسیہ اور ممتاز کے ساتھ ان کی جوڑی کو پنجابی فلموں میں بے حد پسند کیا گیا۔ خاص طور پر ممتاز کے ساتھ ان کی کیمسٹری کو ناظرین نے کئی فلموں میں سراہا۔ انجمن کے ساتھ ان کی جوڑی نے 1980 کی دہائی میں کئی سپر ہٹ فلمیں دیں، جنہوں نے سینما گھروں میں ریکارڈ توڑ بزنس کیا۔ صائمہ اور ریما کے ساتھ بھی انہوں نے آخری دور کی فلموں میں کام کیا، جنہوں نے نئی نسل کو بھی متاثر کیا۔ ان ہیروئنوں کے ساتھ سلطان راہی نے وہ کلاسک فلمیں تخلیق کیں جنہوں نے پنجابی سینما کو بامِ عروج پر پہنچایا اور فلمی تاریخ میں انہیں ایک ناقابلِ فراموش مقام عطا کیا۔
بدقسمتی سے 9 جنوری 1996 کو گوجرانوالہ کے قریب نامعلوم افراد نے ان پر حملہ کیا اور وہ اس قاتلانہ حملے میں جاں بحق ہو گئے۔ ان کی وفات نے نہ صرف فلمی صنعت بلکہ پورے ملک کو سوگوار کر دیا۔ انہیں لاہور کے میانی صاحب قبرستان میں دفن کیا گیا، اور آج بھی ان کی قبر پر مداح فاتحہ خوانی کے لیے جاتے ہیں۔ سلطان راہی کا نام آج بھی پاکستانی فلمی تاریخ میں سنہری حروف میں لکھا جاتا ہے۔ ان کی فلمیں، مکالمے، اور کردار عوامی شعور کا حصہ بن چکے ہیں اور وہ تا دیر دلوں میں زندہ رہیں گے۔
0 Comments