Ticker

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

ثنا یوسف کے قتل کے اصل ذمہ دار


ایک ٹین ایج بچے یا بچی کی سب سے بڑی خواہش کیا ہو سکتی ہے؟ اچھے کپڑے، آئی فون ، اچھے ریسٹورنٹ پر کھانے اور فیم اور جب یہ آسانی سے ملنا شروع ہو جائے تو اکثر تباہی کا باعث بن جاتا ہے۔ پاکستانی فیملی وی لاگرز نے پیسے کی نمائش اور  مہنگی شاپنگ، موبائلز اور فارن ٹورز کا جو ٹرینڈ شروع کیا ہے اس نے نئی نسل کا بیٹرہ غرق کر دیا ہے۔ 

پرانے زمانوں میں اکثر طوائفوں کو قتل کر دیا جاتا تھا یا انکے چہروں پر تیزاب پھینک دیا جاتا تھا کیونکہ ان کوٹھوں پر آنے والے عاشق یہ سمجھتے تھے کہ دولت لٹانے کے بعد وہ طوائف انکی ملکیت ہو گئی ہے اور وہ یہ بھول جاتے تھے کہ بازار میں بکنے والی ہر چیز بکاو ہوتی ہے اور وہیں اسے اصل جھگڑا شروع ہوتا تھا اور اب تک ہوتا آ رہا ہے۔ 

پاکستان میں آئے دن ٹک ٹاکر تواتر سے قتل ہو رہی ہیں اورپھر سوشل میڈیا پر ایک طوفان آ جاتا ہے مگر سچ بات کوئی نہیں کرتا کیونکہ سوشل میڈیا پر طوفان اٹھانے والے بھی انہیں ٹک ٹاکرز کے پیٹی بہن بھائی ہیں۔  

  جواں سال  ثنا یوسف مر گئ اور ساتھ ہی اسکے پیٹی بہن بھائی شروع ہو گئے کہ معصوم ماری گئی ۔ پاکستان میں عورت محفوظ نہیں۔ اس کا کیا قصور تھا، معصوم روح چلی گئی۔ اسکا کنٹینٹ بہت معیاری ہوتا تھا اس نے کبھی کوئی کوئی غلط ویڈیو نہیں بنائی۔  یہ باتیں کرنے والے وہ لوگ ہیں جو خود اس کمائی اور سبسکرائبر ، فولو اور شئیر کے نشے میں دھت ہیں۔ سب اس موت پر مختلف آرا دے رہے ہیں اور مگر اصل بات کوئی نہیں کر رہا ہے ۔ چلیں آج اصل حقائق پر روشنی ڈالتے ہیں۔

سب سے پہلے میں نے ثنا یوسف کا کنٹینٹ چیک کیا۔ کچھ مختلف نہیں ۔ وہی کام جو باقی لوگ کرتے ہیں۔ گانوں پر رقص ، ٹھمکے لگانا، مرد اور خواتین دوستوں کے ساتھ گھومتے وی لاگ بنانا ،اور وہی مہنگے لباس، شاپنگ ، مہنگے ہوٹلوں میں کھانا، اور سب کچھ جسے آج کل کی عوام پسند کرتی ہے۔  پھر میں نے ثنا یوسف کا فیس بک پیج کھولا اور اس کی آئی ڈی کے نئچے لکھا تھا ۔ 

DM for Paid promotion

DM for Paid Collaboration

Story Promotion available

 اوپر والے الفاظ کا اردو مطلب یہ ہے کہ آپ اگر اپنی پروڈکٹ کی تشہیر چاہتے ہیں تو پیسے دے کر کروالیں۔ مل کر کام کرنا چاہتے ہیں تو پیسے دے کر کروا لیں۔ آپ انسٹا گرام پر چلیں جائیں وہاں ہر تیسری فی میل کی آئی ڈی کے نیچے یہ الفاظ لکھے مل جائیں گے ۔  عام سی شکل صورت کی لڑکی بھی میک اپ کرکے انسٹا کے فلٹر لگا کر خود کو ہیروئن بنا کر اچھا سا فوٹ شوٹ کروا کر  آئی ڈی پر تصویرں ڈاون لوڈ کرتی ہے۔ اور پھرپاکستان کی ترسی ہوئی ٹھرکی قوم دھڑا دھڑ انکو فولو کرنا شروع ہو جاتی ہے اور جیسے ہی دس ہزار فولورز بنتے ہیں یہ پیڈ پروموشن والا سین شروع ہو جاتا ہے۔ فولورز بڑھانے کے لئے  بچیاں ٹک ٹاک پر بھی چند مشہور گانوں پر ٹھمکے لگا کر اچھے خاصے ٹھرکی قسم کے فولورز اکٹھی کر لیتی ہیں اور پھر ٹک ٹاک لائیو سیشن شروع ہو جاتے ہیں۔ اب کیا ہوتا  ہے۔۔۔

دنیا بھر میں شکاری موجود ہوتے ہیں جن کے پاس حرام کمائی کے لاکھوں روپے  موجود ہوتے ہیں جو ان معصوم بچیوں کا شکار کرنے کے لئے موجود ہوتے ہیں۔  ایسی آئی ڈیز ان شکاریوں کے لئے ایک آسان ٹارگٹ ہوتی ہیں۔ ان لڑکیوں کو پیغام بھیجا جاتا ہے کہ کسی چیز کی پروموشن کروانی ہے اور پھر پروموشن کے بہانے لاکھوں کے تحائف ، کپڑے جوتے اور موبائل فون دے دیے جاتے ہیں اور پھر آپس  کے رابطے شروع ہو جاتے ہیں کیونکہ دولت کس کو بری لگتی ہے۔ پھر ایک ہی وقت میں کئی کئی شکاری شکار دبوچنے میں لگ جاتے ہیں۔

اور اکثر اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ ایک امریکی کہاوت ہے کہ لنچ کبھی بھی مفت نہیں ملتا۔ تو پھر کوئی بندہ پروموشن کے لئے یا ٹک ٹاک لائیو پر لاکھوں روپے کا شیر کیوں گفٹ کرے گا۔ 

اب اگلی اسٹیج آتی ہے ملنے کی اور تعلقات کو آگے بڑھانے کی اور ایسا ہوتا بھی ہے۔ گذشتہ مہینوں میں بہت سی ٹک ٹاکرز کی شرمناک ویڈیوز لیک ہوئی ہیں اور سب کو پتہ ہے مگر نا کوئی قانونی کاروائی اور نہ کو شرمندگی  بلکہ کچھ ٹک ٹاکرز تو تسلسل کے ساتھ ویڈیوز لیک کر رہی ہیں اور اپنے فولورز کی تعدار بڑھا رہی ہیں۔  

اب جب ٹک ٹاکرز کے تعلقات بڑھتے ہیں اور کولیبوریشن کے نام پر مہنگے گفٹ اور پیسے بھی لے لئے جاتے ہیں تو پھر کئی دیوانے عشق کر بیٹھتے ہیں ۔اور پھر وہ لڑکی کو اپنی ملکیت سمجھنا شروع کر دیتے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ انہوں نے خرید لیا ہے مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا۔ مارکیٹ میں بکنے والی چیز ہر ایک کے لئے دستیاب ہوتی ہے اور جب شکاری زیادہ تنگ کرنے لگتا ہے تو پھر اچھے تعلقات رنجش کا شکار ہو جاتے ہیں  اوریہاں تک کہ بہت سے جنونی شکاری  جان لینے سے بھی دریخ نہیں کرتے۔

میں سمجھتا ہوں کہ اس ساری صورتحال کے زمہ دار ہم خود ہیں۔ ثنایوسف تو معصوم بچی تھی۔ جیسے دوسری نئی نسل اچھے موبائل، کپڑوں اور پیسے سے متاثر ہوتی ہے وہ بھی ہو گئ مگر کیا اسکے والدین نے کبھی محسوس کیا کہ یہ سب غلط ہے یا درست۔ انہوں نے کبھی ثنا یوسف کی مصروفیات پر نظر ڈالی کہ وہ سوشل میڈیا پر کیا پوسٹ کر رہی ہے؟ کیا انہوں نے کبھی اسکے حلقہ احباب کو چیک کیا؟ یا  شائید پیسہ سب کی آنکھوں پر پٹی باندھ دیتا ہے۔ جب کوئی لڑکی سوشل میڈیا پر آتی ہے تو وہ سب کی پینچ میں ہوتی ہے۔ کوئی بھی اس سے رابطہ کر سکتا ہے اور یہی رابطے آگے چل کر بربادی کا باعث بنتے ہیں۔

فیملی وی لاگنگ کے نام پر جو ٹرینڈ پاکستان میں شروع ہوا ہے وہ ہمیں مزید تباہی کے دہانے پر لے کر جائے گا۔ اور اس سے کسی کا بھی محفوظ رہنا نا ممکن ہے۔

حکومت کو چاہیے کہ سوشل میڈیا کے استعمال کے لئے کچھ قوانین بنائیں جائیں۔ اسکے علاوہ والدین کو بھی چاہیے کہ بچوں کی سوشل میڈیا کی سرگرمیوں پر نظر رکھیں اور صرف پیسے کو ترجیع بنا کر آنکھیں بند کر لینا بہت سے خطرات کو جنم دے گا۔ اور پھر کوئی اور معصوم لڑکی اس مایا جال  کا شکار ہو جائے گی۔ 

  

You May Read This Also

Post a Comment

0 Comments