Ticker

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

مسعود رانا کی زندگی کی کہانی


پاکستان میں جب موسیقی کی تاریخ لکھی جائے گی تو مسعود رانا کا نام سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔ مسعود رانا پاکستان کے نامور گلوکاروں میں سے ایک تھے جنہوں نے اپنی شاندار آواز اور وسیع فنی خدمات کے ذریعے موسیقی کی دنیا میں ایک انمٹ مقام حاصل کیا۔ ان کا اصل نام مسعود احمد رانا تھا اور وہ 9 جون 1938 کو میرپورخاص (سندھ) میں ایک جاٹ گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے آباؤ اجداد مشرقی پنجاب کے شہر جالندھر سے ہجرت کرکے پاکستان آئے تھے۔ بچپن سے ہی انہیں گانے کا شوق تھا۔ اگرچہ ان کی رسمی موسیقی کی تعلیم کے بارے میں زیادہ معلومات موجود نہیں، لیکن ان کی آواز اور فن نے ثابت کیا کہ وہ قدرتی طور پر ایک باکمال گلوکار تھے۔

مسعود رانا نے اپنے فنی سفر کا آغاز 1955 میں ریڈیو پاکستان حیدرآباد سے کیا۔ بعد ازاں وہ کراچی منتقل ہوئے جہاں انہوں نے ندیِم بیگ اور اخلاق احمد کے ساتھ ایک موسیقی گروپ تشکیل دیا۔ ان کا فلمی سفر 1962 میں فلم ’انقلاب‘ سے شروع ہوا، جس میں انہوں نے "مشرق کی تاریک فضا میں نیا سویرا پھوٹا ہے" گانا گایا۔ اسی سال فلم ’بنجارن‘ کے گیتوں سے انہیں شہرت حاصل ہوئی۔ 1964 میں پنجابی فلم ’ڈاچی‘ کے مقبول گیت "تانگے والا خیر منگدا" نے انہیں عوامی سطح پر بڑی کامیابی دلوائی۔ 1966 میں اردو فلم ’ہمراہی‘ کے چھ گیتوں نے ان کی شہرت کو مزید چار چاند لگا دیے۔

مسعود رانا نے اپنی 34 سالہ فنی زندگی میں کسی بھی سال ایسی فلم نہیں چھوڑی جس میں ان کی آواز شامل نہ ہو۔ وہ پاکستان کے وہ پہلے مرد گلوکار تھے جنہوں نے اردو اور پنجابی دونوں زبانوں میں 300 سے زائد فلمی گانے گائے۔ انہوں نے نہ صرف فلمی گانے گائے بلکہ ملی نغمے بھی ان کی آواز کا خاصا تھے، جیسے "اے وطن ہم ہیں تیری شمع کے پروانوں میں" اور "زندگی ہوش میں ہے جوش ہے ایمانوں میں" جو آج بھی قومی دنوں پر بڑے فخر سے سنائے جاتے ہیں۔

انہوں نے دو فلموں میں اداکاری بھی کی، جن میں ’شاہی فقیر‘ اور ’دو مٹیاراں‘ شامل ہیں۔ ان کی بے پناہ خدمات کے اعتراف میں انہیں 1965 اور 1971 میں نیگار ایوارڈ برائے بہترین گلوکار سے نوازا گیا۔ ان کا فنی قد اتنا بلند تھا کہ انہیں اکثر “پاکستانی محمد رفیع” بھی کہا جاتا تھا، کیونکہ ان کی آواز کی طاقت، سُر کی صفائی، اور جذباتی اظہار میں وہی معیار نظر آتا تھا۔

4 اکتوبر 1995 کو مسعود رانا کا اچانک دل کا دورہ پڑنے کے باعث انتقال ہو گیا، جب وہ ایک ٹرین کے سفر پر تھے۔ انہیں لاہور کے کریم بلاک قبرستان (اقبال ٹاؤن) میں سپرد خاک کیا گیا۔ اپنی زندگی میں 550 سے زائد فلموں میں گانے گا کر، اور اردو و پنجابی موسیقی میں 300 سے زیادہ گانوں کے ساتھ، مسعود رانا نے جو میراث چھوڑی وہ آج بھی زندہ ہے۔ ان کے گانے ریڈیو، ٹی وی اور یوٹیوب پر مسلسل سننے کو ملتے ہیں، اور نئی نسل بھی ان کی آواز سے متاثر ہو رہی ہے۔

مسعود رانا بلاشبہ پاکستانی فلمی موسیقی کے درخشاں ستارے تھے جن کی آواز آنے والی نسلوں کے لیے ایک ثقافتی ورثے کی حیثیت رکھتی ہے۔

مسعود رانا کے مقبول گیت یہ ہیں

🎬 اردو فلمی گانے

مسعود رانا نے متعدد اردو فلموں میں ایسے لازوال گیت گائے جو آج بھی مقبول ہیں

📀تم ہی ہو محبوب میرے، میں کیوں نہ تمہیں پیار کروں" – فلم آئینہ (1966)

📀کوئی ساتھ دے کہ نہ ساتھ دے، یہ سفر اکیلے ہی کاٹ لیں گے" – بدنام (1966)

📀تیری یاد آ گئی، غم خوشی میں ڈھل گئے" – چاند اور چاندنی (1968)

📀جھوم اے دل وہ میرا جانِ بہار آئے گا" – دل میرا دھڑکن تیری (1968)

📀میرا خیال ہو تم، میری آرزو تم ہو" – نرگس (1969)

📀میرا محبوب آ گیا، من میرا لہرا گیا" – نیند ہماری خواب تمہارے (1971)

📀تیرے بنا یوں گھڑیاں بیتیں، جیسے صدیاں بیت گئیں" – آنسو (1971)

📀میرے دل کی ہے آواز کہ بچھڑا یار ملے گا" – بہارو پھول برساؤ (1972)

📀آگ لگا کر چھپنے والے سن میرا افسانہ" – دل لگی (1974)

📀اے دل تجھے اب اُن سے کیسی یہ شکایت ہے" – شرارت (1963)



🎬 پنجابی فلمی گانے

مسعود رانا پنجابی فلموں میں بھی اتنے ہی کامیاب رہے

📀تانگے والا خیر منگدا" – ڈاچی (1964)

📀ساہنوں نہ وسریو سجنیا" – بھریا میلہ (1966)

📀یاراں نال بہاراں" – یاراں نال بہاراں (1967)

📀سوچ کے یار بناویں بندیا" – جگری یار (1967)

📀دل دیاں لگیاں جانے نا" – باوجی (1968)

📀تیرے ہتھ دی بے دردے آیا، پھلاں جیہا دل توڑ کے" – شیراں دی جوڑی (1969)

📀ساہ لے لاوے یاد تیری" – دل دیاں لگیاں (1970)

📀تیرے مدھ بھرے نین مل پائیں" – جیرا بلیڈ (1973)

📀ساہنوں اے نگری داتا دی، ایتھے آندا کل زمانہ" – نگری داتا دی (1974)

📀یار منگیا سی ربّا، تے تُوں رو کے وی نہ دتا" – عشق نچاوے گلی گلی (1984)


🇵🇰 ملی و قومی نغمے

ان کے ملی نغمے پاکستان کے قومی جذبات کا اظہار ہیں

📀ساتھیو، مجاہدو، جاگ اُٹھا ہے سارا وطن" – مجاہد (1965)

📀اے وطن ہم ہیں تیری شمع کے پروانوں میں" – آگ کا دریا (1966)

۔📀یاد کرتا ہے زمانہ انہی انسانوں کو – ہمراہی (1966)

۔📀ملت کا پاسبان ہے محمد علی جناح

۔📀میرا رنگ دے شہیدی چولا

۔📀اپنی دھرتی اپنا دی


🎤 دوگانے (ڈوئٹس)

مسعود رانا نے کئی مشہور گلوکاراؤں کے ساتھ خوبصورت دوگانے بھی گائے

📀ساتھیو، مجاہدو…" (شوکت علی کے ساتھ)

📀دور ویرانے میں اک شمع ہے…" (مالا کے ساتھ)

📀دے گا نہ کوئی سہارا…" (نسیم بیگم کے ساتھ)

📀تجھے پیار کی قسم ہے…" (مالا کے ساتھ)

📀بھیگی بھیگی ٹھنڈی ہوا" (رونا لیلیٰ کے ساتھ)



You May Read This Also

Post a Comment

0 Comments