بینظیر بھٹو ایک باہمت، ذہین اور اصول پسند سیاستدان تھیں جنہوں نے نہ صرف پاکستان بلکہ پوری اسلامی دنیا میں پہلی خاتون وزیرِاعظم بن کر نئی تاریخ رقم کی۔ وہ جمہوریت، عوامی حقوق اور خواتین کے کردار کی علمبردار تھیں۔ انہوں نے آمریت کے خلاف جرأت مندانہ جدوجہد کی اور دو بار ملک کی وزیرِاعظم منتخب ہوئیں۔ ان کے دور میں تعلیم، صحت، خواتین کے حقوق اور سماجی ترقی کے لیے کئی اقدامات کیے گئے۔ اگرچہ انہیں بدعنوانی کے الزامات اور سیاسی مخالفت کا سامنا بھی کرنا پڑا، مگر وہ ہمیشہ جمہوری اقدار اور عوامی خدمت پر قائم رہیں۔ بینظیر بھٹو کی سیاست نظریے، قربانی اور مستقل مزاجی کی علامت ہے۔
بینظیر بھٹو کا بچپن محبت، تعلیم اور سیاسی ماحول سے بھرپور تھا۔ وہ 21 جون 1953ء کو کراچی میں پیدا ہوئیں اور اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو کی سب سے بڑی بیٹی تھیں۔ بچپن ہی سے وہ نہایت ذہین، پُر اعتماد اور حساس مزاج کی مالک تھیں۔ ان کا گھر سیاست کا مرکز تھا، جہاں ملکی و بین الاقوامی معاملات پر گفتگو ہوتی تھی، اور بینظیر ان باتوں کو غور سے سنا کرتی تھیں۔
ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر کے درمیان رشتہ صرف والد اور بیٹی کا نہیں بلکہ دوست اور ہم راز جیسا تھا۔ بھٹو صاحب انہیں محبت سے "پنکی" کہہ کر بلاتے تھے اور اُن کی تربیت میں خاص دلچسپی لیتے تھے۔ وہ بینظیر کو ایک مضبوط، تعلیم یافتہ اور باوقار شخصیت کے طور پر دیکھنا چاہتے تھے، اسی لیے انہوں نے انہیں اعلیٰ تعلیم کے لیے بیرونِ ملک بھیجا۔
بینظیر بھٹو نے خود بھی اپنی تحریروں اور انٹرویوز میں والد سے تعلق کو بڑی محبت سے یاد کیا۔ اُن کے لیے یہ تعلق صرف جذباتی نہیں، بلکہ فکری اور نظریاتی بنیاد بھی رکھتا تھا۔ بھٹو صاحب کے ساتھ گزارے گئے بچپن کے وہ لمحے، اُن کی باتیں اور رہنمائی بعد کی زندگی میں بینظیر کے فیصلوں اور نظریات میں جھلکتی رہیں۔ باپ کی شہادت نے جہاں انہیں اندر سے توڑ دیا، وہیں اسی محبت اور قربت نے انہیں ایک باہمت سیاسی رہنما بھی بنایا۔
محترمہ بینظیر بھٹو پاکستان کی پہلی خاتون وزیرِاعظم تھیں، جنہوں نے نہ صرف ملکی سیاست میں نئی تاریخ رقم کی بلکہ دنیا کے تمام مسلم ممالک میں پہلی بار کسی خاتون کو سربراہِ حکومت بننے کا اعزاز بھی حاصل کیا۔ وہ 21 جون 1953ء کو کراچی میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے نامور سیاستدان اور وزیرِاعظم تھے، جبکہ والدہ نصرت بھٹو ایک باہمت ایرانی-کرد نژاد خاتون تھیں۔ بینظیر نے اپنی ابتدائی تعلیم کراچی سے حاصل کی اور بعد ازاں اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکہ اور برطانیہ چلی گئیں۔ انہوں نے ہارورڈ یونیورسٹی کے ریڈکلف کالج سے گریجویشن کیا اور پھر آکسفورڈ یونیورسٹی سے فلسفہ، سیاست اور معاشیات میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ آکسفورڈ یونیورسٹی میں وہ آکسفورڈ یونین کی صدر بھی منتخب ہوئیں، جو ان کی قائدانہ صلاحیتوں کا اعتراف تھا۔
بینظیر بھٹو کا سیاسی کیریئر اس وقت شروع ہوا جب ان کے والد کو فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کے دور میں پھانسی دے دی گئی۔ اس سانحے نے بینظیر کو جمہوری جدوجہد کی راہ پر ڈال دیا۔ انہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت سنبھالی اور آمریت کے خلاف بھرپور مہم چلائی۔ 1988ء میں وہ پاکستان کی پہلی خاتون وزیرِاعظم منتخب ہوئیں۔ ان کے دورِ حکومت میں تعلیم، صحت اور خواتین کے حقوق کے حوالے سے کئی اقدامات کیے گئے، تاہم ان کی حکومت قبل از وقت ختم کر دی گئی۔ 1993ء میں وہ ایک بار پھر وزیرِاعظم بنیں، مگر یہ مدت بھی مکمل نہ کر سکیں۔
بینظیر بھٹو کی ذاتی زندگی بھی عوام کی دلچسپی کا مرکز رہی۔ 1987ء میں ان کی شادی آصف علی زرداری سے ہوئی جن سے ان کے تین بچے ہوئے: بلاول، بختاور اور آصفہ۔ بلاول بھٹو زرداری اب پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین ہیں اور اپنی والدہ کے سیاسی مشن کو آگے بڑھا رہے ہیں۔
محترمہ بینظیر بھٹو نہ صرف ایک باصلاحیت سیاستدان تھیں بلکہ ایک محبت کرنے والی اور ذمہ دار ماں بھی تھیں۔ انہوں نے سیاست کی مصروف زندگی کے باوجود اپنے تینوں بچوں — بلاول، بختاور اور آصفہ — کی تربیت پر خاص توجہ دی۔ وہ چاہتی تھیں کہ ان کے بچے نہ صرف تعلیم یافتہ ہوں بلکہ پاکستان کے مسائل کو سمجھنے والے باکردار شہری بھی بنیں۔ بینظیر بھٹو کی ماں کے طور پر پرورش میں شفقت، بصیرت اور قومی شعور کی جھلک نظر آتی ہے، اور آج ان کے بچوں خصوصاً بلاول بھٹو میں جو قیادت کے آثار دکھائی دیتے ہیں، وہ ان کی اسی تربیت کا نتیجہ ہیں۔
بینظیر بھٹو کے دورِ حکومت میں پاکستان کی خارجہ پالیسی میں توازن، مفاہمت اور عالمی سطح پر مثبت تاثر اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی۔ انہوں نے عالمی برادری کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کرنے کو اہم ترجیح دی، خصوصاً امریکہ، چین، سعودی عرب اور اسلامی ممالک کے ساتھ سفارتی روابط کو فروغ دیا۔ بینظیر بھٹو کا نظریہ تھا کہ پاکستان کو ایک اعتدال پسند، ترقی پسند اور جمہوری ملک کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کیا جائے۔
انہوں نے بھارت کے ساتھ تعلقات میں بہتری لانے کی کوشش کی، اور مسئلہ کشمیر کو پرامن طریقے سے حل کرنے کی حمایت کی۔ اُن کی خارجہ پالیسی میں علاقائی استحکام، امن اور باہمی تعاون کو مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ افغانستان کے حوالے سے بھی وہ ایک متوازن پالیسی کی حامی تھیں، تاکہ پاکستان کو شدت پسندی سے محفوظ رکھا جا سکے۔ بینظیر بھٹو نے اپنی دانشمندانہ سفارت کاری کے ذریعے پاکستان کی عالمی ساکھ بہتر بنانے کی کوشش کی، اور خواتین کی قیادت کی ایک روشن مثال دنیا کے سامنے پیش کی۔
بدقسمتی سے 27 دسمبر 2007ء کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں ایک جلسے کے بعد ان پر دہشتگرد حملہ کیا گیا جس میں وہ شہید ہو گئیں۔ ان کی شہادت نے پورے ملک کو غم میں ڈوبا دیا۔ انہیں گڑھی خدا بخش میں دفن کیا گیا جہاں ان کے والد اور دیگر اہلِ خانہ کی قبریں بھی موجود ہیں۔ محترمہ بینظیر بھٹو کی زندگی جمہوریت، جدوجہد، قربانی اور اصولوں پر قائم رہنے کی علامت ہے۔ وہ آج بھی لاکھوں پاکستانیوں کے دلوں میں زندہ ہیں اور ان کی قربانی کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
0 Comments