Ticker

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

اداکار منصور بلوچ کی زندگی کی کہانی

Mansoor Baloch Bio Graphy

 

ہم چلے اس جہاں سے
آج پی ٹی وی کے اداکار منصور بلوچ کو اس جہاں سے گۓ اکتیس سال ھو گۓ آج 3.5.25 کو انکی اکتیسویں برسی ھے۔ 

منصور بلوچ کا تعلق پاکستان کے خوبصورت صوبے سندھ سے تھا۔ منصور بلوچ 1944  میں شہید بینظیر آباد ضلع کے گاؤں بخاری ایک جاگیر دار گھرانے میں  رئیس عبداللہ خان لنڈ کے ہاں پیدا ہوئے، جو اپنے قبیلے کے سردار تھے۔ میں پیدا ہوئے ۔ منصور بلوچ کی شخصیت بھی بہت پرکشش اور با رعب تھی  اور وہ اپنے وقت کے سب سے زیادہ ورسٹائل اداکاروں میں سے ایک بن گئے تھے۔ پاکستان ٹیلی ویژن اور فلم انڈسٹری کے سنہری دور کے دوران، منصور بلوچ ایک گھریلو نام بن کر ابھرے، انہوں نے ٹیلی ویژن ڈراموں اور فلموں میں یادگار کردار ادا کیے جنہوں نے انہیں نہ صرف پاکستان بلکہ پڑوسی ممالک میں بھی شہرت بخشی۔

 منصور بلوچ کا اسٹارڈم کا سفر اس کے چیلنجوں کے بغیر نہیں تھا۔ ایک سخت جاگیردار کے خاندان سے تعلق رکھتے ہوئے، پرفارمنگ آرٹس کے میدان میں اپنا نشان بنانا ہمیشہ مشکل کام ہوتا تھا۔ تاہم، ان کی خواہش اور اداکاری کے جذبے نے انہیں اپنے خوابوں کی تعاقب کرنے پر مجبور کیا، اور انہوں نے اداکاری کے شعبے میں کامیابی حاصل کی۔ اسکے علاوہ وہ  اپنے والد کی جگہ  بلوچ قبیلے کے سردار کے طور پر کامیاب ہوئے۔

  دلیپ کمار کی 1951 کی فلم "ترانہ" نے ان کے عزائم کو ہوا دی۔ انہوں نے تفریحی صنعت میں قسمت آزمائی کے لیے اپنے آبائی شہر نواب شاہ سے جنوبی بندرگاہی شہر کراچی کا سفر کیا۔ اس نے پاکستان ٹیلی ویژن (پی ٹی وی) کے کراچی سینٹر کے باہر ڈیرے ڈال لئے۔

منصور بلوچ   نے اپنے فنی سفرکا آغاز سندھی زبان کی فلم”تُنجھی گالھیوں سجن“سے کیا.انھیں پاکستان ٹیلیویژن پر ذوالفقار نقوی نے ڈرامہ”انکواٸری آآفیسر“میں متعارف کرایا.1970 کی دہاٸ میں انھوں نے سندھی ڈراموں کے سلسلے ”ناٹک سبا“ کے بیشتر ڈراموں میں کام کیاجو پی ٹی وی کے علاقاٸ ٹاٸم 6 س 7 کے درمیان میں پیش ھوا کرتا تھا بعد میں ”ناٹک رنگ“کے نام سے پیش ھوتا رہا.اسی سلسلے کے ایک کھیل ”رانی جی کہانی“  کو جب قومی زبان میں سیریل کےقالب میں ڈھال کر ”دیواریں “ کے نام سے 8 بجے کے پراٸم ٹاٸم میں نشر کیا گیا تو اسے نہ صرف ملکی سطح بلکہ دنیا میں جہاں جہاں قومی زبان جاننے والے موجود تھے وہاں زبردست پزیراٸ ملی.اس میں انھوں نے ھاشم کے کردار میں زبردست کردار نگاری کامظاہرہ کیا تھا اور اسی ڈرامہ سے ان کی شہرت صوباٸ سطح سے نکل کر ملکی اور بیرونی سطح پرھوٸ.یہ ڈرامہ سیریل کراچی سینٹر سے 1983 میں نشر ھوا تھا.منصور بلوچ مکالموں کی اداٸیگی بڑے دھیمے انداز میں کیا کرتے تھے اور یہ ہی انکو دوسروں سے منفرد کرتا تھا 1984 میں انھوں نے نورالہدٰی شاہ کے تحریر کردہ ڈرامے ”جنگل“ میں کام کیا.کراچی سینٹر کے اس ڈرامے کو بھی بے انتہا شہرت ملی.پی ٹی وی کا یہ وہ دور تھا جب اس کے ڈرامے نشر ھوتے تو سڑکیں سنسان ھوجاتی تھیں.دیواریں  کارو کاری جیسی ظالمانہ جاہل رسم پر  پر تھا اور ڈرامہ جنگل خواتین کی جائیداد میں حصہ داری اور  شادی کو لے کر بنایا گیا تھا۔ 

منصور بلوچ نے مختلف زبانوں کی ڈیڑھ درجن کے قریب فلموں میں کام کیا جن میں  جادوگر   مستی خان    پرو   دشمن روٹی   شہید     لیڈی کمانڈو    کالا پانی گوری دیاں جھانجھراں     کالے چور   پیار ہی پیار    خونی شعلے   دل لگی   ببرا    دا وینو سیلاب    شوک مار اور سجاول شامل ھیں


اپنے 20 سالہ کیرئیر میں منصور بلوچ نے کئی ٹیلی ویژن ڈراموں کے علاوہ ایک درجن سے زائد اردو، پنجابی اور پشتو فلموں میں کام کیا۔ انہیں پی ٹی وی کی جانب سے "دیواریں" میں ان کے کردار ہاشن کے لیے بہترین اداکار کا ایوارڈ ملا اور 1984 میں انہیں پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ سے نوازا گیا۔

اپنی کیئریر کے عروج پر منصور بلوچ 3 مئی 1994 کو پرسرار طورانتقال کر گئے۔وہ اس دنیا سے رخصت ہو گئے اور انکی موت ابھی تک ایک معمہ ہے   لیکن ان کی میراث ان کے قابل ذکر کام کے ذریعے زندہ ہے۔

جیسا کہ ہم منصور بلوچ کو ان کی 30 ویں برسی پر یاد کرتے ہیں، ہم پاکستان کی تفریحی صنعت میں ان کی شراکت کا جشن مناتے ہیں اور ان کی ناقابل یقین پرفارمنس کی یادیں تازہ کرتے ہیں۔ ان کی میراث اداکاروں اور فنکاروں کی نئی نسلوں کو متاثر کرتی رہتی ہے، اور ان کا کام ان کی ہنر، جذبہ اور اس کے ہنر کے لیے لگن کا ثبوت ہے۔

You May Read This Also

Post a Comment

0 Comments