مجروح سلطانپوری، جن کا اصل نام اسرار الحسن خان تھا، اردو شاعری اور ہندی فلمی گیت نگاری کے میدان میں ایک ممتاز اور منفرد مقام رکھتے ہیں۔ ان کی زندگی کا سفر ایک حکیم سے عالمی شہرت یافتہ شاعر اور نغمہ نگار تک کا ہے، جو علم، فن، اور جدوجہد سے بھرپور ہے۔
ابتدائی زندگی اور تعلیم
مجروح سلطانپوری یکم اکتوبر 1919ء کو اتر پردیش کے ضلع سلطان پور میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد پولیس میں سب انسپکٹر تھے۔ ابتدائی تعلیم کے بعد انہوں نے عربی اور فارسی کی تعلیم حاصل کی اور درسِ نظامی کا سات سالہ کورس مکمل کر کے "عالم" کا درجہ حاصل کیا۔ بعد ازاں، لکھنؤ کے تکمیل الطب کالج سے یونانی طریقہ علاج میں تعلیم حاصل کر کے حکیم بنے۔
شاعری کا آغاز
حکمت کے پیشے سے وابستگی کے دوران، مجروح نے شاعری کا آغاز کیا۔ 1935ء میں انہوں نے اپنی پہلی غزل سلطان پور کے ایک مشاعرے میں پیش کی، جو سامعین کو بے حد پسند آئی۔ ان کی شاعری میں جگر مرادآبادی اور پروفیسر رشید احمد صدیقی کی رہنمائی کا اہم کردار رہا۔ رشید احمد صدیقی نے انہیں فارسی اور اردو کی کلاسیکی شاعری کے مطالعے کا مشورہ دیا، جبکہ جگر مرادآبادی نے انہیں مشاعروں میں متعارف کرایا۔
فلمی دنیا میں قدم
1945ء میں مجروح ایک مشاعرے میں شرکت کے لیے بمبئی (ممبئی) آئے، جہاں ان کی شاعری نے فلمی دنیا کے مشہور پروڈیوسر اے۔آر۔ کاردار کو متاثر کیا۔ کاردار نے انہیں موسیقار نوشاد سے ملوایا، جنہوں نے مجروح کو ایک دھن پر گیت لکھنے کو کہا۔ مجروح نے "جب اس نے گیسو بکھرائے" لکھا، جو نوشاد کو بے حد پسند آیا۔ یوں، مجروح نے فلم "شاہ جہاں" (1946ء) کے لیے گیت لکھے، جن میں "جب دل ہی ٹوٹ گیا" خاص طور پر مقبول ہوا۔
ترقی پسند تحریک اور جیل
مجروح سلطانپوری ترقی پسند تحریک سے وابستہ تھے اور ان کی شاعری میں سیاسی شعور نمایاں تھا۔ 1949ء میں ان کی ایک نظم کے باعث انہیں دو سال قید کی سزا ہوئی۔ اس واقعے نے ان کی شاعری میں مزید گہرائی اور سنجیدگی پیدا کی۔
فلمی سفر اور نغمہ نگاری
مجروح سلطانپوری نے تقریباً 55 سالہ فلمی کیریئر میں 300 سے زائد فلموں کے لیے ہزاروں گیت لکھے۔ انہوں نے نوشاد، ایس۔ڈی۔ برمن، آر۔ڈی۔ برمن، لکشمی کانت پیارے لال، اور آنند-ملند جیسے موسیقاروں کے ساتھ کام کیا۔ ان کے مشہور گیتوں میں "چاہوں گا میں تجھے سانجھ سویرے" (فلم: دوستی، 1965ء) شامل ہے، جس کے لیے انہیں فلم فیئر ایوارڈ ملا۔
اعزازات اور انعامات
مجروح سلطانپوری کو ان کی ادبی اور فلمی خدمات کے اعتراف میں متعدد اعزازات سے نوازا گیا، جن میں 1993ء میں "دادا صاحب پھالکے ایوارڈ" اور "اقبال سمان" شامل ہیں۔ یہ اعزازات انہیں اردو شاعری اور ہندی فلمی نغمہ نگاری میں ان کی نمایاں خدمات پر دیے گئے۔
وفات
مجروح سلطانپوری کا انتقال 24 مئی 2000ء کو ممبئی میں ہوا۔ ان کی عمر 80 سال تھی۔ وہ پھیپھڑوں کی بیماری میں مبتلا تھے۔ ان کی وفات اردو ادب اور ہندی فلمی دنیا کے لیے ایک بڑا نقصان تھی۔
شاعری کا انداز اور اثر
مجروح سلطانپوری کی شاعری میں کلاسیکی غزل کی روایت کے ساتھ ساتھ جدید سیاسی اور سماجی شعور بھی نمایاں ہے۔ انہوں نے غزل کو نئے موضوعات اور استعارات سے مالا مال کیا۔ ان کا یہ شعر آج بھی مقبول ہے:
"میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا"
ان کی شاعری میں صوفیانہ رنگ، سیاسی شعور، اور انسانی جذبات کی گہرائی پائی جاتی ہے۔ انہوں نے اردو غزل کو نئی جہتوں سے روشناس کرایا۔
مجموعہ کلام
مجروح سلطانپوری کے دو اہم شعری مجموعے شائع ہوئے:
غزل (1982ء)
مشعلِ جان (1991ء)
ان مجموعوں میں ان کی غزلیں شامل ہیں، جو زبان و بیان کی عمدگی اور عصری شعور کی عکاسی کرتی ہیں۔
مجروح سلطانپوری کی زندگی اور شاعری اردو ادب کا ایک روشن باب ہے۔ انہوں نے نہ صرف غزل کو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا بلکہ ہندی فلمی نغمہ نگاری میں بھی اپنی انفرادیت قائم کی۔ ان کی شاعری آج بھی دلوں کو چھو لیتی ہے اور ان کا نام اردو ادب میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔
0 Comments