Ticker

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

میجر عزیز بھٹی شہید


نوے کی دہائی میں پی ٹی وی پر ڈرامہ  میجر عزیز بھٹی شہید پیش کیا گیا۔ ڈرامہ میجر عزیز بھٹی شہید کی زندگی، پیشہ وارانہ صلاحیتوں اور شہادت  کے بارے تصویر کشی کی گئی۔

میجر عزیز بھٹی شہید پاکستان آرمی کے ایک عظیم سپوت تھے جنہوں نے 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں غیر معمولی بہادری اور قربانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مادرِ وطن کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔ ان کی شہادت اور خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا، اور انہیں پاکستان کے سب سے بڑے فوجی اعزاز "نشانِ حیدر" سے نوازا گی


میجر عزیز بھٹی 6 اگست 1928ء کو ہانگ کانگ میں پیدا ہوئے جہاں ان کے والد راجا عبد اللہ بھٹی ہانگ کانگ پولیس فورس میں ملازم تھے۔ میجر عزیز انہوں نے ابتدائی تعلیم ہانگ کانگ میں ہی حاصل کی اور میٹرک کے بعد کوئینز کالج میں تعلیم حاصل کی اور پھرجاپانی بحریہ میں شمولیت اختیار کی ۔
دسمبر 1945  میں میجر عزیز بھٹی اپنے خاندان کے ہمراہ ہندوستان آ گئتے  جون 1946 میں برٹش انڈین ائیر فورس میں شمولیت اختیار کی۔ 1947 میں قیام پاکستان کے بعد، بھٹی نے پاکستان ایئر فورس میں شمولیت اختیار کیااور 1948 تک فضائیہ میں خدمات انجام دیتے رہے۔راجا عزیز بھٹی قیام پاکستان کے بعد 21 جنوری 1948ء کو پاکستان ملٹری اکیڈمی میں شامل ہوئے۔ 1950ء میں پاکستان ملٹری اکیڈمی کے پہلے ریگولر کورس کی پاسنگ آؤٹ پریڈ میں انھیں شہید ملت خان لیاقت علی خان نے بہترین کیڈٹ کے اعزاز کے علاوہ شمشیر اعزازی اور نارمن گولڈ میڈل کے اعزاز سے نوازا پھر انھوں نے پنجاب رجمنٹ میں سیکنڈ لیفٹیننٹ کی حیثیت سے شمولیت اختیار کی اور1962ء میں ترقی کرتے کرتے میجر بن گئے۔ 6 ستمبر 1965ء کو جب بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو میجر عزیز بھٹی لاہور سیکٹر میں برکی کے علاقے میں ایک کمپنی کی کمان کر رہے تھے۔ اس کمپنی کے دو پلاٹون بی آر بی نہر کے دوسرے کنارے پر متعین تھے۔ میجر عزیز بھٹی نے نہر کے اگلے کنارے پر متعین پلاٹون کے ساتھ آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا۔ ان حالات میں جب کہ دشمن تابڑ توڑ حملے کر رہا تھا اور اسے توپ خانے اور ٹینکوں کی پوری پوری امداد حاصل تھی۔ میجر عزیز بھٹی اور ان کے جوانوں نے آہنی عزم کے ساتھ لڑائی جاری رکھی اور اپنی پوزیشن پر ڈٹے رہے۔ 9 اور 10 ستمبر کی درمیانی رات کو دشمن نے اس سارے سیکٹر میں بھرپور حملے کے لیے اپنی ایک پوری بٹالین جھونک دی۔ میجر عزیز بھٹی کو اس صورت حال میں نہر کے اپنی طرف کے کنارے پر لوٹ آنے کا حکم دیا گیا مگر جب وہ بہادری سے لڑتے ہوئے راستہ بناتے ہوئے نہر کے کنارے پہنچے تو دشمن اس مقام پر قبضہ کرچکا تھا تو انھوں نے ایک انتہائی سنگین حملے کی قیادت کرتے ہوئے دشمن کو اس علاقے سے نکال باہر کیا اور پھر اس وقت تک سینہ تان کر  دشمن کے سامنے کھڑے رہے جب تک ان کے تمام جوان اور گاڑیاں نہر کے پار نہ پہنچ گئیں۔ انھوں نے نہر کے اس کنارے پر کمپنی کو نئے سرے سے دفاع کے لیے منظم کیا۔ دشمن اپنے چھوٹے ہتھیاروں‘ ٹینکوں اور توپوں سے بے پناہ آگ برسا رہا تھا مگر راجا عزیز بھٹی نہ صرف اس کے شدید دبائو کا سامنا کرتے رہے بلکہ اس کے حملے کا تابڑ توڑ جواب بھی دیتے رہے۔ میجر عزیز بھٹی شہید ایک بلند جگہ پر کھڑے ہو کر اپنے سپاہیوں کو دشمن کی درست جگہ نشانہ لگانے کی ہدایات دے رہے تھے کہ اسی دوران دشمن کے ایک ٹینک کا گولہ ان کے سینے پر لگا جس سے وہ موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے۔ اس دن 12 ستمبر 1965ء کی تاریخ تھی۔ 26 ستمبر 1965ء کو صدر مملکت فیلڈ مارشل ایوب خان نے پاک فوج کے 94 افسروں اور فوجیوں کو جنگ ستمبر میں بہادری کے نمایاں کارنامے انجام دینے پر مختلف تمغوں اور اعزازات سے نوازا۔ ان اعزازات میں سب سے بڑا تمغا نشان حیدر تھا جو میجر راجا عزیز بھٹی شہید کو عطا کیا گیاتھا۔ راجا عزیز بھٹی شہید یہ اعزاز حاصل کرنے والے پاکستان کے تیسرے سپوت تھے۔
 
ان کے والد کا نام ماسٹر عبداللہ بھٹی اور والدہ کا نام بی بی آمنہ تھا۔ ان کے چار بھائی تھے، نذیر، بشیر، سردار اور راشد اور دو بہنیں، راشدہ اور طاہرہ۔ میجر عزیز بھٹی کے  چھ بچے ہیں، چار بیٹے میجر ظفر جاوید بھٹی، ڈاکٹر ذوالفقار احمد بھٹی، رفیق احمد بھٹی، اور اقبال جاوید بھٹی اور دو بیٹیاں رفعت بھٹی اور زینت بھٹی تھیں۔
 

اعزازت

لاہور کے قریب برکی میں ان کی یادگار تعمیر کی گئی ہے۔🏆

 ان پر پی ٹی وی سے ڈرامہ بھی نیایا گیا یے۔🏆

ان کے بارے میں مضمون پاکستان کے تعلیمی نصاب میں 🏆

ہر سال ستمبر کو ان کی شہادت کی برسی منائی جاتی ہے۔ 🏆

سرگوہا میں انکے نام سے ایک رہائشی علاقہ آباد ہے۔🏆

 

You May Read This Also

Post a Comment

0 Comments