اگر عدنان سمیع خان یا کوئی ہندوستانی مسلمان پاکستان کے خلاف بولتا ہے تو اسکی مجبوری کو سمجھیں اور درگزر کریں۔
از قلم:سارہ خان
جب کبھی عدنان سمیع خان کا نام زبان پر آتا ہے، تو ذہن میں وہ سریلے نغمے گونجنے لگتے ہیں جو ایک دور میں پاکستانی نوجوانوں کے دلوں کی آواز بنے۔ "کبھی تو نظر ملاو" جیسے گیت صرف فن نہیں، بلکہ ایک نسل کی یادیں ہیں۔ مگر وقت نے کروٹ لی، اور وہ عدنان سمیع جنہیں پاکستان میں محبت ملی، اب بھارت کے شہری ہیں — اور بعض ایسے بیانات دے چکے ہیں جو ان کے اپنے وطن میں زخم کی طرح محسوس ہوتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا عدنان سمیع واقعی پاکستان کے مخالف ہو گئے ہیں، یا وہ حالات کے ہاتھوں مجبور ہو کر یہ راستہ چلے ہیں؟
عدنان سمیع نے جب بھارت میں شہریت کے لیے درخواست دی تو وہاں کی حکومت نے ان کی شہریت کو بطور "انعام" پیش کیا۔ بھارتی میڈیا نے انہیں بطور "مثالی مسلمان" پیش کیا، ایک ایسا چہرہ جو پاکستان کے بیانیے سے ہٹ کر بھارت کی تعریف کرتا ہے۔ مگر یہ "تعریف" محض ذاتی رائے نہیں، بلکہ ایک سیاسی پیغام ہوتا ہے۔ بھارت میں بطور مسلمان، خاص طور پر پاکستانی پس منظر کے ساتھ، آپ کو اپنے ہونے کا ثبوت بار بار دینا پڑتا ہے۔ یہ ثبوت کبھی وفاداری کے نعرے سے، اور کبھی پاکستان پر تنقید کی صورت میں سامنے آتا ہے۔
عدنان سمیع کو شاید معلوم تھا کہ خاموشی بھی شک کی گنجائش پیدا کر سکتی ہے۔ چنانچہ انہوں نے بولنا شروع کیا — اور وہ کچھ بھی کہہ دیا جو بھارت کے سیاسی مزاج کو موافق لگا اور جو گودی میڈیا کے بیانیے کے عین مطابق تھا۔ ان کے یہ بیانات پاکستانیوں کو چبھتے ہیں، بالکل ایسے جیسے کسی اپنے نے پیٹھ پیچھے وار کیا ہو۔
مگر ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ عدنان سمیع محض ایک فنکار ہیں، سیاستدان نہیں۔ ان کے بیانات کو جذباتی پیمانے پر پرکھنے کے بجائے اس سماجی دباؤ کے تناظر میں دیکھنا چاہیے جس کا سامنا وہ بھارت میں کرتے ہیں۔ بھارتی سیاست میں آج کا مسلمان وہی معتبر ہے جو پاکستان سے دوری کا اعلان کرے۔ اور عدنان سمیع، اپنی فنکارانہ بقا کے لیے، شاید اسی بیانیے کے ساتھ خود کو جوڑ بیٹھے ہیں۔آپ بھارت میں رہنے والے دیگر مسلمان سیاستدانوں خصوصی طور پراسدالدین اویسی کو دیکھ لیں وہ گودی میڈیا پر بڑھ چڑھ کر پاکستان کے خلاف بول رہےہیں۔ یہ سب دیکھنے کے بعد دو قومی نظریے کو سمجھنا آسان ہو جاتا ہے جس کا ذکر حال ہی میں جنرل عاصم منیر صاحب نے بھی کیا ہے۔
یہ لمحہِ فکریہ بھی ہے اور عبرت کا مقام بھی: کہ جب فنکار سرحدوں کے بیچ پس جاتے ہیں تو ان کے نغمے بھی سیاست کی نذر ہو جاتے ہیں۔ ہمیں بحیثیت قوم جذباتی ردعمل دینے کے بجائے اس بات کو سمجھنا ہوگا کہ ہر وہ شخص جو وطن چھوڑتا ہے، وہ صرف مٹی نہیں، شناخت بھی چھوڑتا ہے — اور نئی شناخت کے حصول میں بعض اوقات پرانی شناخت کو قربان کرنا پڑتا ہے۔
عدنان سمیع ہمارے نہیں رہے، شاید مجبوری میں، شاید مرضی سے۔ مگر جو سوال آج بھی باقی ہے، وہ یہ ہے: کیا ہم ایسے لوگوں کے لیے اپنے دروازے ہمیشہ بند رکھیں گے، یا ان کی مجبوریوں کو سمجھنے کی وسعت رکھ پائیں گے؟
0 Comments