Ticker

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

عرش منیر: پی ٹی وی کی لازوال "بڑی اماں" کی کہانی

arsh-munir-biography


عرش منیر: پاکستانی ڈرامہ کی لازوال "بڑی اماں" کی کہانی

پاکستان ٹیلی ویژن  کی سنہری تاریخ میں کچھ نام ایسے ہیں جو آج بھی شائقین کے دلوں میں زندہ ہیں۔ انہی میں سے ایک نام عرش منیر کا ہے، جو اپنی منفرد اداکاری، دلکش شخصیت اور لازوال فن کی بدولت "بڑی اماں" کے روپ میں ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ عرش منیر نہ صرف ایک بہترین اداکارہ تھیں بلکہ وہ ریڈیو پاکستان کی بھی ایک ممتاز آواز تھیں۔ آئیے آج ہم ان کی زندگی کے دلچسپ اور لازوال سفر پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

ابتدائی زندگی اور ادبی تعلق

عرش منیر 28 مئی 1914 کو لکھنؤ، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئیں۔ ان کا تعلق ایک ایسے گھرانے سے تھا جہاں ادب اور فن کی قدر کی جاتی تھی۔ عرش منیر نے آل انڈیا ریڈیو سے صداکاری کا آغاز کیا اور بہت جلد اپنی آواز کا جادو بکھیر دیا۔

پاکستان ہجرت اور فن کا سفر

قیامِ پاکستان کے بعد عرش منیر اپنے خاندان کے ساتھ پاکستان ہجرت کر گئیں اور کراچی میں سکونت اختیار کی۔ یہاں انہوں نے ریڈیو پاکستان سے بطورِ سٹاف آرٹسٹ وابستگی اختیار کی اور اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ ریڈیو پر ان کی آواز کو بے حد پسند کیا گیا اور انہوں نے کئی یادگار ریڈیو ڈراموں میں کام کیا۔

ٹیلی ویژن کا آغاز اور عروج

پاکستان میں ٹیلی ویژن کی آمد کے ساتھ ہی عرش منیر نے اداکاری کی دنیا میں قدم رکھا۔ پی ٹی وی کے ابتدائی دور میں انہوں نے متعدد ڈراموں میں کام کیا اور اپنی فطری اداکاری سے ناظرین کے دل جیت لیے۔ ان کے مشہور ڈراموں میں سے چند یہ ہیں۔ یہ پاکستان ٹیلی ویژن کا ایک تاریخی اور یادگار ڈرامہ ہے جس میں عرش منیر نے اپنی شاندار اداکاری سے لازوال کردار تخلیق کیے۔ "خدا کی بستی" نے انہیں گھر گھر پہچان دی۔
زیر، زبر، پیش: یہ ایک اور مقبول ڈرامہ تھا جس میں عرش منیر کی اداکاری کو سراہا گیا۔ عرش منیر کے دیگر ڈراموں میں افشاں، شمع، شہزوری، انتظار فرمائیے اور آنا ہیں۔

عرش منیر کی اداکاری میں ایک خاص قسم کی پختگی اور حقیقت پسندی تھی جو انہیں اپنے ہم عصر فنکاروں سے ممتاز کرتی تھی۔ وہ اپنے کرداروں میں اس قدر ڈوب جاتی تھیں کہ ناظرین انہیں حقیقی محسوس کرتے تھے۔ خاص طور پر "بڑی اماں" کے کردار میں ان کی اداکاری نے انہیں ایک آئیکونک حیثیت عطا کی۔

ایوارڈ اور اعزازات

عرش منیر کی فنکارانہ خدمات کے اعتراف میں 1983 میں حکومتِ پاکستان نے انہیں ان کی شاندار کارکردگی پر صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی (Pride of Performance) سے نوازا۔ یہ ان کی محنت، لگن اور فن سے محبت کا منہ بولتا ثبوت تھا۔

وراثت اور اثرات

عرش منیر نے پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری پر گہرے نقوش چھوڑے۔ ان کی اداکاری آج بھی نئے فنکاروں کے لیے مشعل راہ ہے۔ وہ ایک ایسی اداکارہ تھیں جنہوں نے اپنے فن کو کبھی ذاتی تشہیر کے لیے استعمال نہیں کیا بلکہ ہمیشہ اپنی صلاحیتوں اور محنت سے پہچان بنائی۔ ان کا اندازِ مکالمہ اور خاص طور پر پرانی اردو محاوروں اور کہاوتوں کا استعمال، جسے وہ اپنے کرداروں میں خوبصورتی سے پرو دیتی تھیں، ایک الگ ہی کشش رکھتا تھا۔

وفات

8 ستمبر 1998 کو عرش منیر کراچی میں وفات پا گئیں اور سخی حسن کے قبرستان میں سپردِ خاک ہوئیں۔ ان کی وفات سے پاکستانی فن کی دنیا ایک عہد ساز شخصیت سے محروم ہو گئی، لیکن ان کا فن آج بھی ہمارے درمیان زندہ ہے اور انہیں یاد رکھنے کی ایک وجہ ہے۔

عرش منیر صرف ایک اداکارہ نہیں تھیں بلکہ وہ ایک ادارے کی حیثیت رکھتی تھیں۔ ان کی زندگی اور فن پاکستان کے ثقافتی ورثے کا ایک اہم حصہ ہیں۔ ان کی لازوال پرفارمنسز آج بھی پی ٹی وی کے سنہری دور کی یاد دلاتی ہیں اور آنے والی نسلوں کے لیے تحریک کا باعث ہیں۔ عرش منیر کا نام پاکستانی ڈرامہ کی تاریخ میں ہمیشہ سنہرے حروف سے لکھا جائے گا۔


 

You May Read This Also

Post a Comment

0 Comments