کسی زمانے میں ایک سوداگر نے ایک طوطا پال رکھا تھا اور اسے پنجرے میں بند رکھا ہوا تھا ۔ وہ طوطا باتیں بھی کرتا تھا. اور اس سوداگر سے باتیں کرتا رہتا تھا۔ اس سوداگر کو طوطے سے محبت بھی تھی ۔ سوداگر طوطے کا بہت خیال رکھتا تھا اوراسے طرح طرح کے کھانے کھلاتا تھا مگر طوطا اکثر اداس رہتا تھا۔ ایک دن اس سوداگر نے طوطے سے کہا کہ
" میں دور شمال کے سفر پر جا رہا ہوں، وہاں سے کوئی چیز منگوانی ہو تو بتا ... "
طوطے نے کہا کہ :
" وہاں شمال میں تو طوطوں کا جنگل ہے, وہاں ہمارے گُرو رہتے ہیں، ہمارے خاندان کے لوگ اوڑ ساتھی رہتے ہیں ، وہاں جانا اور گرو طوطے اور میرے ساتھیوں کو میرا سلام کہنا اور کہنا کہ ایک "غلام طوطا" پنجرے میں رہنے والا ، غلامی میں، پابند ِ قفس آپ کے آزاد طوطوں کو سلام کرتا ہے ... "
سوداگر جب جنگل میں پہنچا تو واقعی وہاں ڈھیروں طوطے موجود تھے۔ سوداگر نے اونچی آواز میں طوطے کا پیغام سنایا ہی تھا کہ جنگل میں ہل چل دی مچ گئی ۔ اچانک پھڑ پھڑ کی آواز آئی، ایک طوطا گِرا، دوسرا گِرا اور پھر سارے جنگل کے طوطے مر کر زمین پر گئے ۔ سوداگر بڑاحیران ہوا کہ یہ کیسا پیغام تھا کہ ہر طرف قیامت ہی چھا گئی ہے اور جنگل ویران ہو گیا ہے۔سوداگر اداس اور حیران ہوکے واپس چلا آیا۔
واپسی پر طوطے نے پوچھا کہ :
" کیا میرا سلام اور پیغام دیا تھا ...؟ "
سوداگر نے کہا کہ :
" بڑی اداس بات ہے، سلام تو میں نے پہنچا دیا مگر پیغام سنتے ہی تیرا گرو مر گیا اور سارے ساتھی بھی مر گئے ... "
اتنا سننا تھا کہ وہ طوطا بھی پنجرے میں گرا اور مر گیا۔ سوداگر کو بڑا افسوس ہوا۔ اس نے مردہ طوطے کو اٹھا کر باہر پھینک دیا۔ طوطا فوراً اُڑ گیا اور شاخ پر بیٹھ گیا۔
سوداگر نے پوچھا :
" یہ_کیا ...؟ "
طوطے نے کہا کہ :
" بات یہ ہے کہ، میں نے اپنے گُرو طوطے سے پوچھا تھا کہ پنجرے سے بچنے کا طریقہ بتا۔ اس نے کہا کہ مرنے سے پہلے مر جا۔ اور جب میں مرنے سے پہلے مر گیا تو پنجرے سے بچ گیا
یعنی :
" مرنے سے پہلے مر جاؤ "
اپنے نفس یعنی شریر خیالات کو مار دو اور ھمیشہ کی زندگی پاؤ
اگر چہ بہت بڑا سبق ھے کہ نفس کو موت دو خود کے
کے مرنے سے پھلے
یعنی جب انسان اپنی "میں" مار لیتا ہے اور اپنے نفس ہر قابو پا لیتا ہے تو پھر دنیا اور آخرت میں فقط کامیابی ہی کامیابی ہے۔
وہ ایک سجدہ جیسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدوں سے دیتا ہے ادمی کو نجات.
0 Comments