پاکستانی اداکار کمال احمد رضوی: زندگی، کیریئر اور وفات پر مضمون
ابتدائی زندگی اور تعلیم
کمال احمد رضوی یکم مئی 1930ء کوبہار ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ ان کا گھرانہ ادبی ذوق رکھتا تھا۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی شہر میں حاصل کی اور پھر پٹنہ یونیورسٹی سے نفسیات میں گریجویشن کیا۔
پاکستان آمد اور فنی سفر کا آغاز
1951ء میں، تقسیم ہند کے بعد کمال احمد رضوی پاکستان آ گئے۔ کچھ عرصہ کراچی کے علاقے آرام باغ میں ایک اپارٹمنٹ میں رہنے کے بعد وہ لاہور منتقل ہو گئے، جہاں انہوں نے اپنے فنی کیریئر کا آغاز کیا۔ لاہور میں انہیں ادبی اور فنکارانہ ماحول بہت موافق لگا۔ انہوں نے لکشمی مینشن میں رہائش اختیار کی اور مشہور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کے ہمسائے بنے۔ وہ سعادت حسن منٹو کو بہت پسند کرتے تھے اور انکے ساتھ لاہور میں بہت ٹائم گذارا۔ کمال احمد رضوی اکثر پاک ٹی ہاوس جایا کرتے تھے اور مختلف ادیبوں سے ملاقات کرتے تھے۔ ابراہیم جلیس اور شوکت صدیقی نے انہوں نے کافی ٹائم گذرا۔
رضوی نے اپنے کیریئر کا آغاز مشہور عالمی ادب پاروں کے تراجم سے کیا۔ انہوں نے لیو ٹالسٹائی، دوستو وسکی، ترگنیف اور چیخوف جیسے نامور ادیبوں کے ناولوں اور کہانیوں کو اردو میں منتقل کیا۔ 1964ء میں انہوں نے کئی اہم جرائد کی ادارت کے فرائض بھی انجام دیے جن میں "تہذیب"، "آئینہ"، "پھلواری"، "شمع" اور "بچوں کی دنیا" شامل ہیں۔ انہوں نے بچوں کے لیے بھی بہت سی کہانیاں لکھیں۔
ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر پہچان
کمال احمد رضوی نے 1951ء میں ریڈیو پاکستان کے لیے ڈرامے لکھنا شروع کیے۔ ان کا پہلا ریڈیو ڈرامہ "جب آنکھ کھلی" تھا۔ انہوں نے کئی غیر ملکی ڈراموں کے تراجم بھی کیے جن میں "بھوت"، "برف کا طوفان" اور "وحشی بطخ" قابل ذکر ہیں۔ ان کے ریڈیو ڈراموں کو بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی۔
1965ء میں پاکستان ٹیلی ویژن کے قیام کے بعد، کمال احمد رضوی نے ٹی وی کے لیے بھی کام کرنا شروع کیا۔ ان کا سب سے مشہور اور یادگار ڈرامہ سیریل "الف نون" تھا، جس میں انہوں نے "الن" کا لازوال کردار ادا کیا۔ اس سیریل میں ان کے ساتھ رفیع خاور ننھا نے "ننھے" کا کردار نبھایا۔ "الف نون" ایک طویل عرصے تک پی ٹی وی کا مقبول ترین پروگرام رہا اور سماجی برائیوں کو مزاحیہ انداز میں بے نقاب کرنے کی وجہ سے اسے بہت پذیرائی ملی۔ اس ڈرامے کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ نشریات کے وقت سڑکیں سنسان ہو جاتی تھیں۔
کمال احمد رضوی نے بیس سے زائد ڈرامے لکھے اور ان کی ہدایت کاری بھی کی۔ ان کے دیگر مشہور ٹی وی ڈراموں میں "آپ کا مخلص"، "صاحب بی بی غلام" اور "مسٹر شیطان" شامل ہیں۔ انہوں نے تھیٹر کے لیے بھی کئی یادگار ڈرامے لکھے اور ان میں اداکاری کے جوہر دکھائے، جن میں "آدھی بات"، "بادشاہت کا خاتمہ" اور ہم سب پاگل ہیں، خوابوں کا مسافر" قابل ذکر ہیں۔
بحیثیت اداکار اور ہدایت کار
کمال احمد رضوی ایک باکمال اداکار ہونے کے ساتھ ساتھ ایک کامیاب ہدایت کار اور مصنف بھی تھے۔ انہوں نے اپنے طویل فنی کیریئر میں مختلف اصناف میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ ان کی اداکاری میں ایک خاص قسم کی سنجیدگی اور مزاح کا امتزاج پایا جاتا تھا، جس نے ان کے کرداروں کو حقیقت کے قریب تر بنا دیا۔
اعزازات
حکومت پاکستان نے ان کی گرانقدر خدمات کے اعتراف میں 1989ء میں انہیں تمغہ حسن کارکردگی سے نوازا۔
وفات
طویل علالت کے بعد 17 دسمبر 2015ء کو کراچی میں 85 سال کی عمر میں کمال احمد رضوی کا انتقال ہو گیا۔ انہیں کراچی کے مقامی قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔ تاہم، وہ اپنے فن کے ذریعے آج بھی اپنے مداحوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔ کمال احمد رضوی صاحب کے بیٹے امریکہ میں مقیم ہیں۔
کمال احمد رضوی بلاشبہ پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری کے ایک اہم ستون تھے، جنہوں نے اپنی منفرد اداکاری، شاندار ڈرامہ نگاری اور بہترین ہدایت کاری سے ایک سنہری دور رقم کیا۔ ان کا نام ہمیشہ پاکستانی فنون لطیفہ کی تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھا جائے گا۔
0 Comments