چھت، قوالی اور چائے کی خوشبو
رات کے تین بجے کا وقت تھا۔ چھت پر ہوا مدھم سی چل رہی تھی، اور بان کی چارپائی پر لیٹے منصور کی آنکھ کھل گئی۔ آسمان پر جھلملاتے ستارے اور دور کہیں مسجد کے مینار پر لگے سپیکر سے ازان کی آواز آ رہی تھی۔ وہ لحاف سے نکل کر چھت کی منڈیر کے پاس جا بیٹھا۔ نیچے صحن میں نیم کے درخت کی شاخیں رات کی خاموشی میں ہل رہی تھیں۔
صبح کے ہلکے ہلکے سُرمئی اجالے میں جب سورج کی پہلی کرنیں پرانی گلیوں کے کچے راستوں پر پڑتی ہیں، تو پورے محلے میں زندگی کی ہلکی ہلکی رمق محسوس ہونے لگتی ہے۔ کہیں دورسے اذانِ فجر کی گونج آتی ہے، جو فضاء میں عقیدت کا رنگ گھول دیتی ہے۔ لوگ وضو کے بعد سفید چادریں لپیٹے مسجد کی طرف رواں دواں ہوتے ہیں۔
مشرقی افق پر ہلکی سنہری روشنی نمودار ہو چکی ہے ۔گلی کے نکڑ پر دودھ والا اپنی سائیکل کے کیریئر پر بڑی سی پیتل کی بالٹی رکھے، ہر دروازے پر آواز دیتا ہے "دودھ لے لو۔!
دادا جان، جو ہمیشہ سے نیند میں کم اور قوالی میں زیادہ رہتے تھے، ایک طرف لیٹے، اپنے پرانے ٹیپ ریکارڈر کے ساتھ کچھ کرنے میں مصروف تھے۔ ہلکی سی "کلیک" کی آواز آئی، اور پھر فضاء میں وہی مانوس ساز گونجا:
تاجدارِ حرم، ہو نگاہِ کرم
یہ آواز صحن سے لے کر دل کے اندر تک اتر گئی۔ منصور نے اپنی چادر ٹھیک کی اور دادا کے ساتھ بیٹھ گیا۔ دادا جان نے آہستہ سے کہا پتر، یہ قوالی صرف گانے کا نام نہیں، یہ دل کو جگانے کا ذریعہ ہے۔
قوالی کی مدھم لَے کے ساتھ دادا کی سرگوشی نما تسبیح کی آواز شامل ہو گئی — جیسے وقت رُک گیا ہو۔
صبح کی اذان کے ساتھ چھت پر موجود سب افراد ایک ایک کر کے آنکھیں ملتے نیچے اترنے لگے۔ نیچے صحن میں اماں چائے کا پانی رکھ چکی تھیں، اور تندور کی طرف بھاگے گئے بچوں کی واپسی پر گرم نان کی خوشبو ہر طرف پھیل گئی۔
اخبار ابھی آیا نہیں تھا، مگر ابّا جان ریڈیو پر خبروں کی تیاری میں بیٹھے تھے۔ آواز آئی:
یہ ریڈیو پاکستان ہے، اب آپ خبریں سنیے
قوالی اب بند ہو چکی تھی، لیکن اُس کا اثر پورے صحن پر چھایا ہوا تھا۔ ریڈیو پاکستان پرتازہ خبریں نشر ہو رہی تھیں۔اور پھرریڈیو پر نعت کی پرسوز آواز گھر کے اندر ایک مانوس روحانی ماحول پیدا کرتی ہے۔ اماں چولہے پر تانبے کی کٹوری میں دودھ گرم کر رہی ہیں، اور ساتھ ہی پرانے مٹی کے چولہے میں کوئلے دہک رہے ہیں۔ چائے کے ساتھ پراٹھے کی خوشبو کچن سے پورے گھر میں پھیل رہی ہے۔ باورچی خانے کے ایک کونے میں مٹی کی ہنڈیا میں رات کا بچا ہوا سالن دھیمی آنچ پر گرم ہو رہا ہے۔ دادا جان ایک پیالہ چائے لے کر صحن کے کونے میں بیٹھ گئے، اور انکے ہونٹ اللہ کے زکر میں مشغول تھے۔
منصورہاتھ میں چائے کا پیالہ تھامے چھت کی طرف دیکھ رہا تھا۔ اسے یاد آیا کہ کل رات چاندنی کتنی روشن تھی، اور کیسے سب بہن بھائی ایک ساتھ لیٹے، ایک دوسرے کو ستاروں میں جانوروں کی شکلیں دکھا رہے تھے۔ کسی نے کہا تھا، "وہ دیکھو، وہ بندر ہے!" اور سب ہنس دیے تھے۔
گلیوں میں پرانی سائیکلوں کی گھنٹیاں بج رہی ہیں، کہیں دودھ
والا سائیکل پر ٹین کا کنستر لٹکائے آہستہ آہستہ گلی میں داخل ہو رہا ہے،
تو کہیں اخبار فروش اخبار کے بنڈل کو کاندھے پر لادے، ساکت گلیوں میں زندگی
کی پہلی آواز بن کر گونج رہا ہے۔
محلے کے نکڑ پر ایک چھوٹا سا چائے کا ہوٹل ہے، جہاں تین چار مزدور، ہاتھ میں روٹی لپیٹے، تیز گرم چائے کے گھونٹ لے رہے ہیں۔ پیچھے لاوڈ اسپیکر سے نور جہاں کی آواز میں کوئی پرانی فلمی نغمہ بج رہا ہے، جو ایک خواب جیسے وقت کی یاد دلا رہا ہے۔
گلی میں کہیں کہیں بچے اسکول کی وردی میں بستے سنبھالے، تیل لگے بالوں میں سیدھی مانگ نکالے ، آنکھوں میں سرمہ ڈالے چمکتے جوتوں کے ساتھ اسکول کی طرف دوڑے جا رہے ہیں۔
منصور کی چائے ختم ہوئی، بچے اسکول روانہ ہوئے، ابا کام پر چلے گئے، اماں نے برتن سمیٹنے شروع کیے، اور دادا جان نے دوبارہ تسبیح ہاتھ میں پکڑ لی۔
زندگی آگے بڑھ گئی — لیکن وہ صبح، وہ چھت، وہ قوالی اور وہ چائے کی خوشبو — منصور کے دل میں ہمیشہ کے لیے ٹھہر گئی۔
نہ کسی کے ہاتھ میں موبائل تھا، نہ "لائک" کا انتظار۔ راتیں خاندان کی ہوتی تھیں، اور صبحیں خدا کی۔ کوئی فوری اطلاع کی ضرورت نہیں تھی، کیونکہ سب جانتے تھے کہ جو ضروری ہے، وہ وقت پر پہنچ جائے گا — چاہے وہ خط ہو، یا کوئی پرانی یاد۔
یہ کہانی صرف ایک صبح کی نہیں، ایک دور کی ہے۔ ایک ایسی دنیا کی جو اب صرف یادوں میں بچی ہے، مگر جنہیں سچائی، سکون، اور سادگی نے امر کر دیا ہے۔
0 Comments