Ticker

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

اقبال بانو ایک عظیم گلوکارہ

iqbal bano songs

پائل میں گیت ہیں چھم چھم کے۔۔ دل توڑنے والے دیکھ کے چل۔۔۔ سال 80  کی دہائی میں جب  اقبال بانو بڑے سلیقے سے بالوں کا بڑا سا جوڑا بنا کر اور آنکھوں میں کاجل کے ڈورے ڈال کرساڑھی پہنے گانے کے لئے آتیں تھی تو بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی کے سامنے بیٹھے دادا ابا حضور اپنا چمشہ ٹھیک کرتے ہوئے انکے گیتوں پر جھوم اٹھتے تھے۔ اس وقت ہمیں موسیقی کی سمجھ نہیں تھی ۔ ہم سوچتے تھے آخر ایسے گانے سن کر کیا مزہ ملتا ہوگا پر جب ٹائم گذرا تو اندازہ ہوا کہ اصل موسیقی ہی وہ تھی ۔  

اقبال بانو  برصغیر پاک و ہند کی ایک نامور کلاسیکی گلوکارہ تھیں۔  جو سراور ساز کی باریکیوں سے آشنا تھیں اور جب وہ گاتی تھیں تو موسیقی کی سمجھ بوجھ رکھنے والے ایک الگ ہی سحر میں کھو جاتے تھے۔ اقبال بانو صاحبہ کوخصوصی طورپر غزل گائیکی میں ملکہ حاصل تھااور ان کی آواز میں ایک خاص سوز اور درد تھا جو سننے والوں کے دلوں میں اتر جاتا تھا۔

اقبال بانو 1928 میں دہلی میں پیدا ہوئیں۔ اور انکا بچپن روہت دہلی میں گذرا ۔ ان کو بچپن سے ہی موسیقی کا شوق تھا ۔ ایک دن وہ اپنی سہیلیوں کے ہمراہ بیٹھی گیت گنگنا رہی تھیں کہ انکی سہیلی کے والد نے انکی آواز سنی ، انہوں نے اقبال بانو کے والد محترم سے کہا کہ میری بیٹیاں بھی گانا گاتی ہیں پر جو جو آواز، لہجہ اور درد اقبال بانو کی آواز میں ہے اس ایک دن وہ بہت بڑی گلوکارہ بنیں گی۔ انہوں نے موسیقی کی ابتدائی تعلیم استاد چاند خان اور استا صابری خان سے  حاصل کی جو دہلی گھرانے کے ایک بڑے استاد تھے۔ ان کی تربیت نے ان کی آواز کو نکھارا اور انہیں کلاسیکی موسیقی کی گہرائیوں سے روشناس کرایا۔

 استاد چاند خان نے ان سے پہلا گانا آل انڈیا ریڈیو پر گوایا۔ تقسیم ہند کے بعد 1948 میں، تقسیم ہند کے بعد، وہ پاکستان ہجرت کر گئیں اور ملتان میں سکونت اختیار کی۔ ان کی شادی ایک زمیندار گھرانے میں ہوئی جس نے ان کے فن کو جاری رکھنے میں بھرپور تعاون کیا۔

اقبال بانو نے ریڈیو پاکستان سے اپنے فنی سفر کا آغاز کیا اور جلد ہی اپنی منفرد گائیکی کی بدولت پہچان بنا لی۔ انہوں نے اردو فلموں کے لیے بھی کئی یادگار گانے گائے جن میں "پائل میں گیت ہیں چھم چھم کے"، "الفت کی نئی منزل کو چلا" اور "دونو دلوں پہ ہوا الفت کا اثر" خاص طور پر مقبول ہوئے۔

تاہم، اقبال بانو کی اصل پہچان غزل گائیکی تھی۔ انہوں نے فیض احمد فیض، مرزا غالب، اور دیگر بڑے شعراء کی غزلوں کو اپنی آواز سے لازوال بنا دیا۔ ان کی گائی ہوئی فیض کی نظم "ہم دیکھیں گے لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے" ایک خاص اہمیت رکھتی ہے، جسے انہوں نے جنرل ضیاء الحق کے آمرانہ دور میں ایک بڑے مجمعے میں گا کر ظلم کے خلاف ایک طاقتور احتجاج ریکارڈ کرایا تھا۔ اس واقعے کے بعد انہیں کچھ عرصے کے لیے سرکاری ٹیلی ویژن پر نشر ہونے سے بھی روک دیا گیا تھا۔

اقبال بانو نے ایران اور افغانستان میں بھی اپنی فارسی غزلوں سے بہت مقبولیت حاصل کی۔ انہیں 1974 میں حکومت پاکستان کی طرف سے پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔

 سال 1980  میں انکے شوہر کا انتقال ہو گیا تو وہ ملتان سے لاہور شفٹ ہو گئیں۔ انکے تین بچے ہیں۔ 21 اپریل 2009 کو لاہور میں 81 سال کی عمرمیں ان کا انتقال ہو گیا، لیکن ان کی آواز اور ان کا فن آج بھی ان کے مداحوں کے دلوں میں زندہ ہے۔ انہیں بجا طور پر "ملکہ غزل" کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ ان کی گائی ہوئی غزلیں اور گیت اردو موسیقی کے خزانے کا ایک قیمتی حصہ ہیں۔

You May Read This Also

Post a Comment

0 Comments