Ticker

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

عزیز میاں قوال کی زندگی کی کہانی

AZIZ MIAN QAWAL BIOGRAPHY
 

سال  80  کی دہائی میں جب صبح صبح اماں دہی لینے بھیجتی تھی تو یاسین پہلوان کے چائے کے ہوٹل پر روزعزیز میاں قوال صاحب کی  شرابی میں شرابی قوالی بج رہی ہوتی تھی۔ لوگ بینچ پر بیٹھے دہی ، چائے اور بن کے ساتھ ناشتہ کر رہے ہوتے تھے اور ساتھ ساتھ قوالی کو انجوائے کر رہے ہوتے تھے۔ اور مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ہم وہ قوالی گنگناتے بھی رہتے تھے مگر ان دنوں ان کے الفاظ اور مفہوم کا اندازہ نہیں ہوتا تھا۔ آج بھی جب یہ قوالی سنتا ہوں تو دہائیوں پہلے کا وہی ٹھنڈا وقت یاد آجاتا ہے جو ہوس اور لالچ سے پاک تھا۔

عزیز میاں 17 اپریل 1942 کو  دہلی، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے اور انکا نام عبدالعزیز رکھا گیا۔ لفظ میاں، جو وہ اکثر اپنی قوالیوں میں استعمال کرتے تھے، ان کے  نام کا حصہ بن گیا۔ وہ اپنا تعارف عزیز میاں میرٹھی کے نام سے کرانے لگا۔ لفظ میرٹھی سے مراد شمالی ہندوستان کا ایک شہر میرٹھ ہے جہاں سے وہ 1947 میں پاکستان ہجرت کر گئے تھے۔

عزیز میاں قوال ایک پاکستانی روایتی قوال تھے جو اپنی قوالی کے انداز میں غزلیں گانے کے لیے مشہور تھے اور انہیں جنوبی ایشیا کے عظیم قوالوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ ان کے پاس ت سب سے طویل قوالی، حشر کے روز یہ پوچھونگا، جو 115 منٹ سے زیادہ چلتی ہے، گانے کا ریکارڈ ہے۔ عزیز کو شہنشاہ قوالی (قوالی کا بادشاہ)، "فوجی قوال" (فوجی گلوکار) کے نام سے جانا جاتا ہے، کیونکہ ان کی ابتدائی پرفارمنس اکثر فوجی بیرکوں میں ہوتی تھی، اور "نیٹزشین قوال"۔

دس سال کی عمر میں انہوں نے لاہور کے استاد عبدالواحد خان کی سرپرستی میں ہارمونیم بجانا سیکھنا شروع کیا۔ انہوں نے لاہور کے داتا گنج بخش سکول میں سولہ سال کی تربیت حاصل کی اور اردو ادب، اسلامیات اور فلسفہ میں ماسٹرز (ایم اے) کی ڈگریاں حاصل کیں، اور پنجاب یونیورسٹی لاہور سے انگریزی ادب میں بیچلر کی ڈگری حاصل کی۔

عزیز میاں کا شمار غیر روایتی پاکستانی قوالوں میں ہوتا تھا۔ ان کی آواز تیز اور طاقتور تھی۔ عزیز میاں واحد ممتاز قوال تھے جنہوں نے اپنی غزلیں لکھیں (حالانکہ دوسروں کی طرح انہوں نے بھی دوسرے شاعروں کے لکھے ہوئے گیت گائے)۔صابری برادران عزیز میاں ہم عصر تھے اور اکثر انکے مدمقابل ہوتے تھے۔

عزیز میاں نے سب سے پہلے نجی محفلوں میں پرفارم کرنا شروع کیا۔ تاہم، ان کے کیریر کا باضابطہ آغاز 1966 میں ہوا، جب اس نے ایران کے شاہ محمد رضا پہلوی کے سامنے پرفارم کیا۔ ایران کے شاہ ان کی کارکردگی سے اس قدر متاثر ہوئے کہ انہوں نے عزیز میاں کو سونے کا تمغہ دیا۔ اسی لمحے سے عزیز میاں نے مقبولیت حاصل کی اور البمز ریلیز کرنے لگے۔ قوالیاں گانے کے علاوہ وہ غزلیں گانے کے بھی ماہر تھے۔ وہ اپنی منفرد اور کرکرا آواز کی وجہ سے قوال برادری کا ایک مشہورحصہ بن گیا۔ اپنے کیریئر کے ابتدائی دنوں میں، انہیں فوجی قوال کے نام سے جانا جاتا تھا کیونکہ ان کی ابتدائی اسٹیج پرفارمنس فوجی بیرکوں میں فوجی اہلکاروں کے لیے تھی۔ انکی قوالی کا انداز اور صوفیانہ سٹائل اور پرفارمنس نے انکو قوالی کی دنیا کا بادشاہ بنا دیا۔ اور کبھی کبھی وہ قوالی کرے اتنے محو ہو جاتے تھے کہ سامعین میں بھی ایک الگ ہی سماع بندھ جاتا تھا

 عزیز میاں نے اپنی شاعری کے علاوہ علامہ اقبال ، اور کئی ہم عصر اردو شاعروں، جن میں قمر جلالوی، جگر مرادآبادی، تابش کانپوری ایس ایم صادق، سیف الدین سیف اور قتیل شفائی شامل ہیں کے کلام کو گایا۔

عزیز میاں 6 دسمبر 2000 کو تہران، ایران میں ہیپاٹائٹس کی پیچیدگیوں سے انتقال کر گئے۔ وہ حکومت ایران کی دعوت پر امام علی کی برسی کے موقع پر پرفارم کرنے کے لیے ایران میں تھے۔ جو ان کی آخری کارکردگی تھی۔ وہ ملتان میں نو بہار نہر کے دہانے پر آسودۂ خاک ہیں۔

عزیز میاں کے نو بیٹے سمیت کل 12 بچے تھے۔ ان کے ایک بیٹے عمران عزیز میاں روایتی قوال اور موسیقار ہیں۔

 عزیز میاں قوال کا شمار پاکستان کے بااثر صوفی قوالی گلوکاروں میں ہوتا ہے۔
 ان کی مشہور قوالی میں شرابی کو ہندوستانی فلم کاک ٹیل میں دکھایا گیا تھا اور اسے ان کے بیٹے عمران عزیز میاں نے گایا تھا۔
 ملتان میں ان کے مزار کے قریب ایک پل کا نام عزیز میاں کے نام پر عزیز میاں پل رکھا گیا۔

ان کا پہلا دورہ ایران 1966 کے دوران تھا، جہاں انہوں نے ایران کے شاہ محمد رضا پہلوی کے سامنے اپنی پہلی بین الاقوامی کارکردگی کا مظاہرہ کیا، اس کارکردگی کے بعد انہیں گولڈ میڈل سے نوازا گیا۔
موسیقی میں ان کی خدمات کے صلے میں حکومت پاکستان نے انہیں 1989 میں پرائیڈ آف پرفارمنس میڈل سے نوازا۔

 

انکی چند مشہور قوالیاں یہ ہیں۔

۔👈تیری صورت نگاہوں میں پھرتی رہے/میں شرابی میں شرابی۔

 اللہ ہی جانے کون بشر ہے۔۔👈

  آدمی ہے بے نظیر۔👈

 میری داستان حسرت۔👈

 نسیم ای سبھا گلشن میں۔👈

 ۔👈بے وفا تیرا یوں مسکرانا بھول جانے کے قابل نہیں ہے


 ۔
👈ہائے کمبخت تو نہ پائی ہی نہیں۔

 انکی آنکھوں سے مستی برستی رہے ۔
۔👈

 آسمان سے اتر گیا ۔
۔👈

 کبھی کہا نہ کسی سے / ڈبہ کے چل دیے۔
۔👈

 میرے خون آرزو/ یہ مقام زندگی
۔👈

 واہ دل ہی کیا تیرے ملنے کی جو دعا نہ کرے
۔👈

 میں کیا جانو رام تیرا گورکھ دھندھا
۔👈

 جنت مجھے ملے نہ ملے
۔👈

 حشر کے روز میں پوچھونگا
۔👈

 میری آرزو محمد / نا کلیم کا تصوّر
۔
👈

You May Read This Also

Post a Comment

0 Comments