شاکر شجاع آبادی ایک درویش صفت سرائیکی زبان کے معروف شاعر ہیں۔ آپ 25 فروری 1954 کو پنجاب پاکستان کے شہر شجاع آباد ضلع ملتان میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم وہیں حاصل کی ۔ جسمانی معذوری کے باعث شاکر درست طریقے سے بول نہیں سکتے۔ معاشی طور پر وہ ہمیشہ تنگ دست رہے اور انکا زیادہ تر گذارہ حکومت کی طرف سے وظائف پر تھا۔ انہوں نے اپنی گذر اوقات کے لئے پھل بیچے چوکیداری بھی کی پر صحت کے مسائل کے باعث ہمیشہ مشکلات کا شکار رہے۔ کچھ عرصہ سے وہ بیمار ہیں اور حکومت پنجاب نے انکے علاج کا اہتمام بھی کیا۔
گورنرپنجاب نے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں شاکر شجاع آبادی کو پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگریوں سے نوازا جس کے بعد وہ ڈاکٹر شاکر شجاع آبادی کہلانے لگے پر افسوس ہم اس عظیم شاعر کی قدر نہیں کر سکے اور آج بھی یہ شاعر ایک چھوٹے سے گھر میں کسمپرسی کی زندگی گذار رہا ہے۔
شاکر نے اپنی شاعری کا آغاز مزاروں پر کلام پڑھنے سے کیا اور انکا پہلا مشاعرہ 1986 میں ہوا اور پھر انہوں نے 1991 میں آل پاکستان مشاعرے میں شرکت کی جس سے انکو شہرت ملی اور لوگوں کو انکے بارے میں پتہ چلا۔
شاکر کی شاعری محبت، وفا شاعری، جدو جہد اورغربت ،اور پسماندگی پر مبنی ہے۔
سال 2007 میں انہیں پہلا صدارتی ایوارڈ ملا۔
سال 2017 میں میں انہیں دوسرا صدارتی ایوارڈ ردیا گیا۔
سال 2023 میں انہیں ستارہ امتیاز سے نواز گیا۔
شاکر نے ایک بار صحافیوں سے بار کرتے ہوئے کہا کہ مختلف مذاہب اور ذاتوں کے لوگ میری شاعری کی وجہ سے مجھ سے محبت کرتے ہیں، اس حقیقت سے قطع نظر کہ میں ایک ہی عقیدہ کا دعویٰ کرتا ہوں یا نہیں۔ میں تمام ٹوٹی پھوٹی روحوں کی آواز ہوں اور اپنی شاعری کے ذریعے اپنے جذبات کا اظہار کرتا ہوں۔
سال 2016 میں، لودھراں، پنجاب میں ایک کتاب کی رونمائی کی تقریب منعق کی گئی۔ اس تقریب میں، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے صدر نے کہا شاکر
شجاع آبادی سرائیکی شاعری کا ایک معروف نام ہیں جو سچے دل اور جذبات کے
مالک ہیں، ایسے شاعر معاشرے میں ہمیشہ بلند مقام رکھتے ہیں کیونکہ ان کی
شاعری ذاتی اور سماجی زندگی کے حقیقی پہلوؤں کی عکاسی کرتی ہے۔
شاکر شجاع آبادی کے مشہور شعروں میں۔
تو محنت کر تے محنت دا صلہ جانے خدا جانے
تو دیوا بال کے رکھ شاکر، ہوا جانے خدا جانے
نبھا نہ سکیں تاں ، سہارا نہ ڈیویں
کوئی خواب میکوں ، اُدھارا نہ ڈیویں
0 Comments