فون مسلسل بجتا جا رہا تھا۔ فیصل آفس جانے کے لئے تیار ہورہا تھا اور فون کی بیل اسے مزید لیٹ کر رہی تھی۔ فون کی بیل مسلسل بج رہی تھی تنگ آ کر فیصل نے فون اٹھایا۔ سکرین پر کوی نامعلوم نمبر نظر آ رہا تھا۔
ہیلو فیصل نے فون اٹھاتے ہی غصے سے کہا۔
جی ہیلو۔ نادیہ؟ ایک نسوانی آواز نے پوچھا
کیا میں آواز سے نادیہ لگتا ہوں۔ فیصل نے غصے سے کہا۔
"تو کیا آپ نادیہ کو فون دے سکتے ہیں؟"
کوئی نادیہ یہاں نہیں رہتی۔ غلط نمبر".فیصل نے غصے سے فون کاٹ دیا۔ اسے آفس کے لیے پہلے ہی دیر ہو رہی تھی اور اب یہ رانگ نمبر۔ آج یقیناً آفس لیٹ ہی ہینچوں گا فیصل اندر ہی اندر سوچ رہا تھا ۔ ادھر فیصل کی بیوی نورین باورچی خانے میں فیصل کا لنچ پیک کر رہی تھی۔ وہ چلائی، "کس کا فون تھا؟"
رانگ نمبر تھا۔ فیصل لنچ باکس لے کر گھر سے باہر نکل گیا۔
وہ فون کال کے بعد میرے سوال کا صحیح جواب دیے بغیر اس طرح باہر کیوں بھاگ رہا ہے؟ جانے کس کی کال تھی۔ نورین نے حیرت سے سوچا۔ فیصل بہت اچھا شوہر تھا پر پھر بھی اسے نجانے کیوں شک ہو رہا تھا۔ کیونکہ چند دن سے فیصل کے نمبر پر رانگ نمبرز بہت آ رہے تھے۔
دو دن گزر گئے۔ ہفتہ کی شام تھی۔ فیصل اور نورین کوئی کامیڈی فلم دیکھ رہے تھے۔ اچانک دوبارہ فون کی گھنٹی بجی۔
ہیلو... نہیں نادیہ یہاں نییں رہتی ہے.. رانگ نمبر۔"فیصل نے دوبارہ فون کاٹ دیا۔نورین نے اس کے چہرے کی طرف دیکھا۔ جوالجھا سا لگ رہا تھا۔
منگل کی شام پھر فون آیا۔ اس بار نورین نے سوچا کہ اسے معلوم کرنا چا ہیے کہ یہ نادیہ کون ہےاور فیصل اسے کیسے جانتا ہے اور کیا چھپانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اسے حقیقت کا پتہ لگانا ہے۔ پچھلے کچھ دنوں سے وہ بہت پریشان نظر آرہا ہے اور اپنا فون ہمیشہ اپنے پاس رکھتا ہے۔ کہیں فیصل کا کسی کے ساتھ کوئی افیئر تو نہیں چل رہا ۔ نورین کا شک مضبوط ہو رہا تھا۔ رات کو جب فیصل سو گیا تو نورین نے چپکے سے فیصل کا فون اٹھایا اور اس نے وقت دیکھ کر ڈائل لاگ سے فون نمبر نوٹ کر لیا۔ وہ اب حقیقت جاننے کے لیے تیار تھی۔
اگلے دن جب فیصل آفس کے لیے نکلا تو نورین نے اس پر کال ملائی۔
ہیلو، دوسری طرف سے ایک بوڑھی کمزور خاتون کی آواز نے کہا۔
ہیلو، کیا آپ نادیہ کو ڈھونڈ رہی ہیں؟نورین نے سوال کیا۔
ہاں. کیا وہ وہاں ہے؟ خاتون نے پوچھا۔"
ہاں وہ ہے لیکن اس سے پہلے آپ مجھے بتائیں کہ آپ اسے کیسے جانتے ہو؟ اور آپ کو یہ نمبر کیسے ملا۔ نورین نے سوال کیا۔
نادیہ بہت پیاری لڑکی ہے۔ وہ میرے پوتے کوپیانو سکھانے آتی ہے۔ وہ 2 دن سے نہیں آرہی تھی تو میں نے سوچا پتہ کر لوں۔ میرے پاس اس کا نمبر نہیں تھا لیکن ایک دن اس نے ایک نمبر سے کال کی تھی تو مجھے لگا کہ یہ اس کا نمبر ہے۔ تم کون ہو؟ خاتون نے حیرانی سے پوچھا۔
میں نادیہ کی بڑی بہن ہوں۔ وہ اپنے دوستوں کے ساتھ سیر کے لیے باہر گئی ہوئی ہے۔ یہ کون سا طالب علم ہے؟ کیا آپ مجھے بتا سکتی ہیں تاکہ جب وہ واپس آئے گی تو میں اسے بتا سکوں۔ نورین نے تجسس سے پوچھا۔‘‘
خاتون نے کہا اسے بتانا وکی کی دادی کا فون تھا جہاں وہ ہر جمعہ کی شام 7 بجے جاتی ہے۔ آپ کتنے سال کے ہو؟ کیا آپ شادی شدہ ہیں؟ خاتون نے سوال کیا؟
ہاں، میں شادی شدہ ہوں۔ وہ اس جمعہ کو بھی واپس نہیں آئے گی۔ اس نے مجھ سے اپنے طلباء سے ملنے کو کہا تھا کیونکہ میں بھی آرٹ ٹیچر ہوں لیکن ہو سکتا ہے وہ مجھے آپکا پتہ دینا بھول گئی ہوں۔ کیا آپ مجھے اپنا ایڈریس دے سکتی ہیں؟ نورین نے استفسار کیا"
کیوں نہیں ۔ خاتون نے ایڈریس لکھواتے ہوئے اس سے بات چیت شروع کی اور پھر وہ مزید 20 منٹ تک ادھر ادھر کی باتیں کرتی رہی۔ نورین نے تھک ہار کر کسی طرح فون رکھ دیا۔
یہ نادیہ کون ہے؟ اسے معلوم کرنا ہوگا۔ وہ فیصل کے فون سے کیوں کال کرے گی؟ اس کا فیصل سے کیا رشتہ ہے؟ وہ جتنا زیادہ سوچتی جا رہی تھی خیالات اتنے ہی الجھتے جارہے تھے ۔
نورین نے فیصلہ کیا کہ اسے اسے اس تجسس کو ختم کرنا ہوگا۔ اسے جلد از جلد اس خاتون سے ملنا چاہیے۔۔ اس سے بات کر کے نادیہ کے بارے میں معلوم کرنا چاہیے۔
اگلے جمعہ کو اس نے پتہ ٹھیک سے چیک کیا اور گھر سےنکل گئی۔ فیصل فلم دیکھنے جانا چاہتا تھا۔ مگر اس نے فیصل کو کہا کہ وہ اپنی ایک دوست سے ملنے جا رہی ہے۔ اسے گھر کا پتہ ڈھونڈنے میں کافی وقت لگا۔ یہ ایک پوش ایریا میں ایک پرانی عمارت تھی۔ شام کے 6 بج کر 55 منٹ ہو چکے تھے۔ اس نے دروازے کی گھنٹی بجائی۔ کافی دیر تک کوئی جواب نہ آیا۔ اس نے دوبارہ دروازے کی گھنٹی بجائی۔ کچھ دیر بعد دروازہ آہستہ سے کھلا۔ وہاں ایک بوڑھی عورت چھڑی سے خود کو متوازن کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔
کس سے ملنا ہے آپ نے؟‘‘
’’میں آپ کے پوتے کو پڑھانے آئی ہوں۔ یاد ہے ہم نے فون پر بات کی تھی۔
"اوہ، آو پلیز اندر آؤ۔"
خاتون نے نورین کو اندر آنے کا کہاَ۔ نورین اندر چلی گئی۔ گھراچھے طریقے سے سجا ہوا تھا ۔ نورین صوفے پر بیٹھ گئی اور سامنے ہی خاتون نے نشست سنمبال لی۔
نورین نے پوچھا آپکا پوتا کہاں ہے؟‘‘
خاتون مسکرائی۔ اس نے اسے دیوار پر لگی تصویر دکھائی۔ "وہ وہاں ہے۔ وہ امریکہ میں اپنے والدین کے ساتھ رہتا ہے۔
’’لیکن آپ نے کہا تھا کہ نادیہ اسے ہر جمعہ کو پڑھانے آتی ہے۔‘‘
"کون نادیہ؟ کوئی نادیہ نہیں ہے ۔ بوڑھی خاتون نے مسکراتے ہوئے کہا۔‘‘
نورین کو ایک دم سے خوف سا محسوس ہونے لگا۔ پھر آپ نے نادیہ کو کال کیوں کی تھی۔ نورین نے پریشانی سے پوچھا
بوڑھی عورت سر جھکا ئے بیٹھی تھی۔ پورے کمرے میں سناٹا چھایا ہوا تھا۔
پھر کمرے میں بوڑھی خاتون کی آواز گونجی۔ آپ نے دیکھا کہ میں ایک بوڑھی عورت ہوں جو اس بڑے سے گھر میں اکیلی رہتے ہے جس کا کوئی دوست نہیں ہے۔ کوئی ساتھی نہیں ہے۔ میرے بچے امریکہ میں رہتے ہیں اور سالوں بعد چند دنوں کے لئ آتے ہیں تو اس گھر میں عید کا سا سماں ہوتا ہے۔ ورنہ سارا سال زندہ لاش کی طرح اس گھر میں پڑی رہتی ہوں۔
کبھی کبھی میں کسی دوسرے انسان کی آواز کو ترس جاتی ہوں تو میں کبھی کبھی فون پر رانگ نمبر ملا لیتی ہوں۔ کبھی کچھ لوگ بات کرتے ہیں، کبھی
کچھ لوگ فون منقطع کر دیتے ہیں۔ میں بس اپنی تنہائی کو دور کرنے کے لئے
ایسا کرتی ہوں۔ پلیز مجھے غلط نہ سمجھیں اور کچھ دیربیٹھ جائیں مجھ سے
باتیں کریں۔ خاتون نے اداس لہجے میں کہا۔
نورین کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ اسے ایک ہی وقت میں شرم ،احساس جرم اور غصہ اور ترس محسوس ہوا۔ شرم اوراحساس جرم اس لئے کہ اس نے اپنے شوہر پر بلا وجہ شک کیا ۔ اورغصہ اسے اس اولاد پر آیا جو اپنے بوڑھے والدین کو تنہا چھوڑ جاتے ہیں۔ اور اس ترس اور ہمدردی اسے اس بوڑھی خاتون سے ہورہی تھی۔
اس نے آگے بڑھ کر بوڑھی خاتون کا سینے سے لگایا اور پھر اس کے کان میں کہا کہ آج سے میں آپکی پکی والی دوست ہوں۔
0 Comments